بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خواتین کی مروجہ محفلِ نعت خوانی کا کیا حکم ہے؟


سوال

میرے سسرال میں محفل میلاد کے نام سے پروگرام منعقد ہوتا ہے جس میں نعت خواں عورتیں دف کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر پہ نعتیں پڑھتی ہیں اور اس پروگرام میں مروجہ بدعات بھی پائی جاتی ہیں مثلا نعت خواں عورت کے ساتھ ہاتھ ہلا کر درود پڑھنا، خالی کرسی رکھی جاتی ہے کہ اس پر حضورﷺ تشریف فرما ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور کیا اس پروگرام میں شرکت کی جاسکتی ہے؟ کیونکہ سسرال کی جانب سے سختی ہوتی ہے کہ شرکت لازمی کرنی ہے۔انکار بھی نہیں کیا سکتا ۔۔۔۔ کیا شرکت کرنے کی گنجائش ہے؟ اور اس میں جو کھانا تقسیم کیا جاتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتباسعادت اور بعثت  امت محمدیہ کے لیے رحمت وسعادت کا ذریعہ ہے اوراس نعمت کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے، بلکہ مؤمن کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کوآنحضرت سے سچی محبت نہ ہو،اس لیے آپ ﷺ کے حالات اور سیرت مبارکہ کا ذکر کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن اورافضل الاذکار ہے،اور حضورکی سیرت واحوال، فضائل ومناقب اور حیات طیبہ کے مختلف گوشے اجاگرکرنا، اس پر  بیان وتقریر کرنا،اورآپ کی مدح سرائی کرنا کارِ ثواب ہے، لیکن یہ اسی وقت ہے جب کہ سنت وشریعت کے مطابق ہو۔لیکن مروجہ محافل میلاد اورمحافل نعت جس نوعیت سے منعقد کی جاتی ہیں اس کا وجود صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین و تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ کے زمانے میں نہیں تھا۔

لہذاصورت مسئولہ میں بارہ ربیع الاول یاکسی بھی دن کی تعیین کولازم یاباعثِ ثواب سمجھ کر محفل نعت منعقدکرنا،عورتوں کا دف کے ساتھ نعت خوانی کرنا اوراسی طرح کسی بھی دن کی تعیین کولازم یاباعث ِثواب سمجھ کراس میں فقراء اورمساکین کوکھاناکھلانااورخیرات وغیرہ کرنا،کسی شرعی دلیل سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے فقہاء اورائمہ مجتہدین نےبدعت میں شمارکیاہے ۔لہذاایسی محافل نعت منعقدکرنے اوران میں شرکت کرنےاورخیرات وغیرہ کرنےکی شرعاًجائز  نہیں ہے ۔

المدخل لابن الحاج میں ہے ۔

"ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه في شهر ربيع الأول من مولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة....... وعمل طعاما فقط ونوى به المولد ودعا إليه الإخوان وسلم من كل ما تقدم ذكره فهو بدعة بنفس نيته فقط إذ أن ذلك زيادة في الدين وليس من عمل السلف الماضين واتباع السلف أولى بل أوجب من أن يزيد نية مخالفة لما كانوا عليه لأنهم أشد الناس اتباعا لسنة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وتعظيما له ولسنته - صلى الله عليه وسلم - ولهم قدم السبق في المبادرة إلى ذلك ولم ينقل عن أحد منهم أنه نوى المولد ونحن لهم تبع فيسعنا ما وسعهم."

(المدخل لابن الحاج ،فصل فی مولد النبی ۲/ ۲ ، ۱۰ ط:دارالتراث)

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

"قوله: وصوتها عورة في قول. في شرح المنية الأشبه أن صوتها ليس بعورة وإنما يؤدي إلى الفتنة، وفي النوازل نغمة المرأة عورة."

(الفن الثالث من الأشباه والنظائر وهو فن الجمع والفرق، احكام الأنثي، ٣ / ٣٨٣،  ط: دار الكتب العلمية )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں