بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کے لیے قبرستان جانے کا حکم


سوال

کیا عورت قبرستان جاسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے قبرستان میں جانے سے اگر غم تازہ ہو اور وہ بلند آواز سے روئیں تو ان کے لیے  قبرستان جانا  گناہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے جو قبرستان جائیں؛  تاکہ غم تازہ ہو ۔  چوں کہ ان میں صبر کم ہوتا ہے، اس لیے گھر ہی سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔ نیز عورتوں کے لیے جب مساجد میں جماعت سے نماز کے لیے جانا مکروہِ تحریمی ہے تو قبرستان کی زیارت کے لیے گھر سے نکلنے میں بدرجہ اولیٰ کراہت ہوگی، البتہ اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے، اور جوان عورت کے لیے تذکرہ موت و آخرت کی نیت سے جانے میں بھی کراہت ہے۔

ابوداود شريف ميں هے:

"حدثنا ‌محمد بن كثير، أنا ‌شعبة، عن ‌محمد بن جحادة، قال: سمعت ‌أبا صالح يحدث عن ‌ابن عباس قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌زائرات ‌القبور، والمتخذين عليها المساجد والسرج".

(كتاب الجنائز، ‌‌باب في زيارة النساء القبور، ج:3، ص:212، رقم الحديث:3236، ط:المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند) 

ترمذی شریف میں ہے:

"عن أبي صالح، عن ابن عباس قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌زائرات ‌القبور، والمتخذين عليها المساجد والسرج»، وفي الباب عن أبي هريرة، وعائشة،: «حديث ابن عباس حديث حسن»".

(‌‌أبواب الصلاة، باب ما جاء في كراهية أن يتخذ على القبر مسجدا، ج:1، ص:352، رقم الحدیث:320، ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: ’’حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔‘‘
اسی حدیث کے پیشِ نظر عورتوں کے قبروں پر جانے کے بارے میں اکثر اہلِ علم حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے، کیوں کہ عورتیں ایک تو شرعی مسائل سے کم واقف ہوتی ہیں، دوسرے ان میں صبر، حوصلہ اور برداشت کم ہوتا ہے، ان کے حق میں غالب اندیشہ یہی ہے کہ وہ قبرستان جاکر جزع وفزع کریں گی یا کوئی بدعت کریں گی، اسی لیے انہیں قبرستان جانے سے منع کردیاگیا ۔ البتہ اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد".

(‌‌كتاب الجنائز، الصلاة علي الميت في المسجد، ج:2، ص:210، ط:دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقيل: تحرم عليهن. والأصح أن الرخصة ثابتة لهن بحر، وجزم في شرح المنية بالكراهة لما مر في اتباعهن الجنازة. وقال الخير الرملي: إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز، وعليه حمل حديث «‌لعن ‌الله ‌زائرات ‌القبور» وإن كان للاعتبار والترحم من غير بكاء والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز. ويكره إذا كن شواب كحضور الجماعة في المساجد".

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب في زيارة القبور، ج:2، ص:242، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں