بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا وعظ ونصیحت کی مجالس میں شریک ہونا


سوال

کیا عورتیں کسی ایسی مجلس میں وعظ و نصیحت سننے کے لیے شریک ہو سکتی ہیں جہاں مرد بھی شریک ہوں ؟ البتہ عورتوں کی جگہ الگ ہے اور پردے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔

جواب

خواتین کا شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے وعظ و نصیحت کی غرض سے کسی گھر میں جمع ہونا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے اور بزرگوں کا بھی یہی طریقہ چلا آرہا ہے، پس اگر خواتین باپردہ ہوکر وعظ و نصیحت سننے کے لیے کسی گھر میں جمع ہوتی ہوں تو یہ جائز ہے بشرطیہ کے ان کا جمع ہونا ان کے لیے یا واعظ کے لیے فتنہ کا باعث نہ ہو۔

لہذا صورت مسئولہ میں عورتوں کا وعظ ونصیحت کی مجالس میں باپردہ شریک ہونا جائز ہےجبکہ ان کی مجلس بھی مردوں سے الگ ہو۔ 

"صحیح بخاری" میں ہے:

"عن أبي سعيدٍ الخُدريِّ - رضي الله عنه - قال: قالتِ النِّساءُ للنبيِّ صلى الله عليه وسلم : غَلَبَنا عليك الرجال، فاجعلْ لنا يومًا من نفسك؛ فوعدهنَّ يومًا لقيهنَّ فيه، فوعظهنَّ وأمرهنَّ؛ فكان فيما قال لهنَّ: ((ما مِنكنَّ امرأةٌ تُقدِّم ثلاثةً من ولدِها إلا كان لها حجابًا من النار))، فقالت امرأة: واثنينِ؟ فقال: ((واثنين))". (كتاب العلم، باب: هل يجعل للنسآء يوم علي حدة في العلم)".

"عمدة القاري"میں ہے:

"قال النووي: فيه استحباب وعظ النسآء و تذكيرهن الآخرة و أحكام الإسلام و حثهن علي الصدقة، و هذا إذا لم يترتب علي ذلك مفسدة أو خوف فتنة علي الواعظ أو الموعوظ و نحو ذلك". ( ٢/ ١٢٤، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"کوئی شخص اپنے محلہ کی غیر محرم عورتوں کو پردہ میں رکھ کر حیض و نفاس کا مسئلہ، نماز روزہ پاکی ناپاکی کے بارے میں وعظ و نصیحت سنائے اور بتلائے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: جائز ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت ثابت ہے، لیکن اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو احتیاط کرنا چاہیے"۔ ( ٣/ ٣٧٧) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں