بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عوتوں کا قبرستان جانے کا حکم


سوال

 عورت کا قبرستان جانا صحیح ہے یا نہیں؟ براۓ مہربانی اس کا جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جوان عورتوں کے لیے قبرستان جانا مکروہ ہے، البتہ اگر بوڑھی عورت قبرستان جا کر جزع فزع اور رونا دھونا نہیں کرے گی، صرف زیارت کر کے آئے گی تو اس کے لیےقبرستان جانا بلاکراہت جائز ہے، باقی عورتیں گھر میں بیٹھ کر میت کو ثواب پہنچائے تو میت کو ثواب مل جائے گا۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌زائرات ‌القبور، والمتخذين عليها المساجد والسرج."

(کتاب الجنائز، باب فی زیارۃ النساء القبور جلد : 5 ص: 138 ط: دار الرسالة العالمیة)

ترجمہ: ’’حضرت عبد اللہ بن عباسr فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔‘‘

البحر الرائق میں ہے:

"قوله وقيل تحرم على النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلا تجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث «لعن الله زائرات القبور» ، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز ويكره إذا كن شواب كحضور الجماعة في المساجد."

(کتاب الجنائز، الصلوۃ علی المیت فی المسجد ج : 2 ص: 210 ط: دار الکتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502101998

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں