بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا قبرستان جانے اور ایصالِ ثواب کا حکم


سوال

1-  گاؤں  میں  رہنے والے لوگوں اور بزرگوں سے میں نے سنا ہے کہ اگر عورت قبرستان جاۓ تو ہاتھ میں مٹی رکھے،  اگر وہ ایسا نہ کرے گی تو وہ مردوں کو ننگی نظر آتی ہے۔ کیا اس کی کوئی حقیقت ہے؟

2- اکثر میرے گھر والے رات کو کھانا پکا کر لمبی دعا کرتے ہیں کہ مردوں کو اس کا ثواب اور یہ کھانا پہنچتا ہے اور ساتھ ہی کھانے کے ڈھکن بھی اتار کر رکھتے ہیں،  کیا کھانا کھانے سے پہلے کھانا کھانے کی دعا کے بجائے فاتحہ والی دعا مانگنا اور کھانے کے اوپر سے ڈھکن اتارنا جائزہے؟‎

جواب

1- عورتوں کے قبرستان جانے سے متعلق فقہ کی کتابوں میں یہ بات تو ملتی ہے کہ عورتوں کے قبرستان میں جانے سے اگر غم تازہ ہو اور وہ بلند آواز سے روئیں تو ان کے لیے  قبرستان جانا  گناہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے جو قبرستان جائیں؛  تاکہ غم تازہ ہو ۔نیز چوں کہ ان میں صبر کم ہوتا ہے، اس لیے گھر ہی میں ایصالِ  ثواب  کا اہتمام کرنا چاہیے۔ البتہ  اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور  آخرت کی یاد کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے،  جب کہ  جوان عورت کے لیے تذکرہ موت و آخرت کی نیت سے جانا بھی مکروہ ہے۔

البتہ  جو  بات سوال میں مذکور ہے ، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، نہ ہی کسی مستند کتاب میں اس کا ذکر ہے۔ 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210):

"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد".

2- مُردوں کے لیے ایصالِ ثواب سے متعلق تو  یہ  بات کتابوں میں موجود ہے کہ کسی بھی نیک کام کو کیا جائے اور  اس کا ثواب مُردوں  کو بخشا جائے تو اس کا ثواب مردوں تک پہنچتا ہے۔  البتہ کھانا مردوں تک پہنچنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے،  نیز اس غرض سے کھانے کے برتنوں کے ڈھکن کھولنا بھی  درست  نہیں ہے۔

مشكاة المصابيح (1/ 597):

'' وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي''۔

اس حدیث  میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پانی کے صدقہ کا ثواب پہنچنے کا ذکر فرمایا ہے،  اس حدیث اور دیگر کئی احادیث سے معلوم ہواکہ صدقے کا ثواب میت کو پہنچتاہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں