بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا ناخن بڑاھنے اور بھنویں تراشنے کا حکم


سوال

آج کل عورتیں بڑے بڑے ناخن رکھ لیتی ہیں اور بھنویں تراش لیتی ہیں، اس کا شرعاً کیا حکم ہے ؟ کیا کہیں کوئی گنجائش موجود ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ چندچیزوں کو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے انسانی فطرت میں سے قرار دیا ہے،ان میں سےایک ناخن تراشنا بھی ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل فرماتے ہیں:

"پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا، زير ناف بال مونڈنا، مونچھيں چھوٹی کرنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھیڑنا۔"

صحیح بخاری میں  ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: الفطرة ‌خمس: الختان، والاستحداد، وقص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الآباط."

(كتاب اللباس، باب تقليم الاظفار، ج:7، ص:160، ط:دار طوق النجاة)

 اسي ليے فقہاءِ کرام نے ہر ہفتہ ناخن تراشنے کو مستحب قرار دیا ہے، اور ہرجمعے کے روز نہ کاٹ سکے تو ایک جمعہ چھوڑ کر پندرہ دن میں تراش لے، اور چالیس دن سے زیادہ ناخن یا بال نہ کاٹنا مکروہ ہے۔چنانچہ آج کل مروجہ فیشن کے طور پر عورتوں کا ناخن بڑھاناجائزنہیں ہے۔ البتہ وہ مسلمان مجاہدین جو  دار لحرب میں کفار سے جنگ میں مشغول ہوں،فقط ان کے لیے ناخن بڑے رکھنے کی گنجائش ہےکیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دار الحرب میں موجود مسلمانوں کو بغرضِ حفاظت ناخن بڑھانے کا حکم دیا تھا، عام حالت میں مسلمان مرد اور عورتوں کے لیے اس قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويستحب ‌قلم ‌أظافيره) إلا لمجاهد في دار الحرب فيستحب توفير شاربه وأظفاره (يوم الجمعة) .

وفي الرد:(قوله فيستحب توفير شاربه وأظفاره) الأنسب في التعبير: فيوفر أظفاره، وكذا شاربه. وفي المنح ذكر أن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - كتب إلينا: وفروا الأظافير في أرض العدو فإنها سلاح لأنه إذا سقط السلاح من يده وقرب العدو منه ربما يتمكن من دفعه بأظافيره وهو نظير قص الشارب، فإنه سنة وتوفيره في دار الحرب للغازي مندوب، ليكون أهيب في عين العدو اهـ ملخصا."

(كتاب الحظر والاباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:405، ط:سعيد)

اسی طرح کسی عورت کا حسن کے لیے بھنویں بنانا (دھاگا یا کسی اور چیز سے)یا اَبرو کے اطراف سے بال اکھاڑ کر باریک دھاری بنانا جائز نہیں، اس پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے،  اور  دونوں ابرؤں کے درمیان کے بال بھی زیب وزینت کے حصول کے لیے کتروانا جائز نہیں، خواہ یہ شوہر کی خاطر ہویا کسی اور غرض سے ہو، البتہ اگر کسی عورت کی بھنویں بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہوں ،تو ان کو درست کرکے  عام  حالت کے مطابق   (ازالۂ عیب کے لیے)معتدل کرنے کی گنجائش ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي اختيار ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام سواء كان شعرها أو شعر غيرها لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة» النامصة التي تنتف الشعر من الوجه والمتنمصة التي يفعل بها ذلك.

وفي الرد:(قوله والنامصة إلخ) ذكره في الاختيار أيضا وفي المغرب. النمص: نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه، ففي تحريم إزالته بعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب اهـ، وفي التتارخانية عن المضمرات: ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث اهـ ومثله في المجتبى تأمل."

(كتاب الحضر والاباحة، فصل في النظر واللمس، ج:6، ص:373، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403100955

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں