بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا لمبے لمبے ناخن رکھنے اور اسی حالت میں ہانڈی روٹی پکانے کا حکم


سوال

عورتوں کا لمبے لمبے ناخن رکھنا،اور پھر انہیں کے ساتھ گھر میں ہانڈی اور روٹی وغیرہ پکانے کا شرعاًکیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ناخن کاٹنا یا تراشناجہاں فطرت انسانی کا تقاضا ہے وہیں شریعت مطہرہ کا حکم بھی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث شریف میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناخن کاٹنے کوفطرت كا حصہ قرار دیا ہے، اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس دن کے اندر اندر ناخن تراشنے کا حکم فرمایاہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: الفطرة ‌خمس: الختان، والاستحداد، وقص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الآباط."

(كتاب اللباس، باب تقليم الأظفار، ج:7، ص:160، ط:دارطوق النجاة)

ترجمہ:"حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: پانچ چیزیں خصائل فطرت میں سے ہیں:ختنہ کرنا،زیرناف بال صاف کرنا، مونچھ کترنا، ناخن تراشنا،اور بغل کے بال اکھیڑنا۔"

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: - قال أنس - وقت ‌لنا ‌في ‌قص ‌الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط، وحلق العانة، أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة."

(كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، ج:1، ص:222، ط:داراحياء التراث العربي)

ترجمہ:" حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن کاٹنے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ ۴۰ روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔"

لہذا فقہائے کرام نے ہر ہفتہ جمعہ کےدن ناخن تراشنے کو مستحب قرار دیا ہے،اور چالیس دن سے زیادہ ناخن نہ کاٹنا مکروہ تحریمی ہے، پس صورتِ مسئولہ میں عورتوں کا لمبے لمبے ناخن رکھنااور چالیس دن کے اندر اندرتراش کر چھوٹے نہ کرنا خلافِ سنت عمل اور مکروہ ہے،نیز اس فعل میں فساق و فجار کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔لہذا عورتوں کو لمبے لمبے ناخن رکھنے سے احتراز کرنا ضروری ہے۔البتہ لمبے ناخن والی کوئی عورت ہانڈی روٹی پکائے ،اور وہ فی نفسہِ حلال ہوتو وہ حلال ہی رہے گی،اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(ويستحب قلم أظافيره) إلا لمجاهد في دار الحرب فيستحب توفير شاربه وأظفاره (يوم الجمعة) وكونه بعد الصلاة أفضل إلا إذا أخره إليه تأخيرا فاحشا فيكره لأن من كان ظفره طويلا كان رزقه ضيقا.

وفي الرد:(قوله إلا إذا أخره إليه) أي إلى يوم الجمعة بأن طال جدا وأراد تأخيره إليه فيكره."

(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:504، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408101308

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں