عورتوں کا کپڑوں پر شیشے لگانے کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ عورت کو زیب وزینت اپنانے کی اجازت ایک حد تک دیتی ہے کہ ا سے اپنے شوہر اور محارم کے علاوہ دوسر ے لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کیا جائے ، لہذا صورتِ مسئولہ میں عورت کا اپنے کپڑے پر زیب و زینت کے لیے شیشے لگانا جائز ہے ۔ لیکن ایسے کپڑے اپنے شوہر اور محارم کے علاوہ عام لوگوں کے سامنے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے :
" وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ." { سورة النور ."الآية :31 }
ترجمہ :
’’آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے ، بے شک اللہ تعالٰی کو سب کی خبر ہے ، جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں اور ( اسی طرح ) مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ ( وہ بھی ) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور زینت ( کے مواقع ) کو ظاہر نہ کریں مگروہ جو اس ( موقع زینت ) میں سے (غالبا) کھلا رہتا ہے ( جس کے ہر وقت چھپانے میں حرج ہے ) ، اپنے ڈوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں ، اور اپنی زینت ( کے مواقعہ مذکورہ ) کو ( کسی پر ) ظاہر نہ ہونے دیں ، مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے ( محارم پر یعنی ) باپ پر یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر ، یا اپنے ( حقیقی ، علاتی اور اخیافی ) بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی (حقیقی ، علاتی اور اخیافی ) بہنوں کے بیٹوں پر ، یا اپنی لونڈیوں پر یا ان مردوں پر جو طفیلی ( کے طور پر رہتے ) ہوں اور ان کو ذرا توجہ نہ ہو یا ایسے لڑکوں پر جو عورتوں کے پردوں کی باتوں سے بھی ناواقف ہیں ( مراد غیر مراھق ہیں ) اور اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے اور ( مسلمانوں تم سے جو ان احکام میں کوتاہی ہوگئی ہو تو) سب اللہ کے سامنے توبہ کرو ، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
( ترجمہ از بیان القرآن ، مؤلف : مولانا اشرف علی تھانوی ، ج : ۲ ، ص: ۵۷۳ ، الناشر : دار الاشاعت )
احکام القرآن للجصاص میں ہے :
"وروى أبو الأحوص عن عبد الله قال الزينة زينتان زينة باطنة لا يراها إلا الزوج الإكليل والسوار والخاتم وأما الظاهرة فالثياب وقال إبراهيم الزينة الظاهرة الثياب قال أبو بكر قوله تعالى ولا يبدين زينتهن إلا ما ظهر منها إنما أراد به الأجنبيين دون الزوج وذوي المحارم لأنه قد بين في نسق التلاوة حكم ذوي المحارم في ذلك ...إلخ " [ وقال بعده : ] "وقول ابن مسعود في أن ما ظهر منها هو الثياب لا معنى له لأنه معلوم أنه ذكر الزينة والمراد العضو الذي عليه الزينة ألا ترى أن سائر ما تتزين به من الحلي والقلب والخلخال والقلادة يجوز أن تظهرها للرجال إذا لم تكن هي لا بستها فعلمنا أن المراد موضع الزينة ...إلخ ."
( ج : 5 ، ص: 173 ، الناشر : دار إحياء التراث العربي)
تفسیر روح المعانی للألوسي میں ہے :
"وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ أي ما يتزين به من الحلي ونحوه إِلَّا ما ظَهَرَ مِنْها أي إلا ما جرت العادة والجبلة على ظهوره والأصل فيه الظهور كالخاتم والفتخة والكحل والخضاب فلا مؤاخذة في إبدائه للأجانب وإنما المؤاخذة في إبداء ما خفي من الزينة كالسوار والخلخال والدملج والقلادة والإكليل والوشاح والقرط.وذكر الزينة دون مواقعها للمبالغة في الأمر بالتستر لأن هذه الزين واقعة على مواضع من الجسد لا يحل النظر إليها إلا لمن استثني في الآية بعد وهي الذراع والساق والعضد والعنق والرأس والصدر والأذن فنهى عن إبداء الزين نفسها ليعلم أن النظر إذا لم يحل إليها لملابستها تلك المواقع بدليل أن النظر إليها غير ملابسة لها كالنظر إلى سوار امرأة يباع في السوق لا مقال في حله كان النظر إلى المواقع أنفسها متمكنا في الخطر ثابت القدم في الحرمة شاهدا على أن النساء حقهن أن يحتطن في سترها ويتقين الله تعالى في الكشف عنها كذا في الكشاف ...إلخ ."
(ج : 9 ، ص: 335 ، دار الكتب العلمية)
روح البیان للشیخ اسماعیل حقی میں ہے :
"وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ فضلا عن إبداء مواقعها يقال بدا الشيء بدوا وبدوّا اى ظهر ظهورا بينا وأبدى اى اظهر إِلَّا ما ظَهَرَ مِنْها [مكر آنچهـ ظاهر شود از ان زينت بوقت ساختن كارها چون خاتم وأطراف ثياب وكحل در عين وخضاب در كف] فان فى سترها حرجابينا قال ابن الشيخ الزينة ما تزينت به المرأة من حلى او كحل او ثوب او صبغ فما كان منها ظاهرا كالخاتم والفتخة وهى ما لا فص فيه من الخاتم والكحل والصبغ فلا بأس بإبدائه للاجانب بشرط الامن من الشهوة وما خفى منها كالسوار والدملج وهى خلقة تحملها المرأة على عضدها والوشاح والقرط فلا يحل لها ابداؤها الا للمذكورات فيما بعد بقوله (إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ) الآية ."
(ج : 6 ، ص: 141 ، الناشر : دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"لا بأس بالعلم المنسوج بالذهب للنساء فأما للرجال، فقدر أربع أصابع، وما فوقه يكره، كذا في القنية."
(كتاب الكراهية، الباب التاسع في اللبس و مايكره من ذالك و مالايكره ، ج : 5، ص: 332 ، الناشر : سعيد)
وفيه أيضا :
"ولا بأس للنساء بتعليق الخرز في شعورهن من صفر أو نحاس أو شبة أو حديد ونحوها للزينة والسوار منها ولا بأس بشد الخرز على ساقي الصبي أو المهد تعليلا له كذا في القنية."
(كتاب الكراهية، الباب العشرون في الزينة و اتخاذ الخادم، ج : 5، ص: 359، الناشر : سعيد)
فتاوی النوازل للسمرقندی میں ہے :
" الخضاب للرجل بالحناء يجوز للتداوي ، ولايجوز للزينة ، ولاتختضب يد الرجل ورجله؛ لأنه زينة تحل للنساء دون الرجال ...إلخ "
( كتاب الحظر و الإباحة ، باب المتفرقات ، ص: 297 ، الناشر : دار الكتب العلمية )
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144510101101
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن