بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اعضاء عطیہ کرنے والے سے قبر میں سوال کس طرح ہوگا؟


سوال

آج کل لوگ اپنے اعضاء عطیہ کر دیتے ہیں  جیسے دل وغیرہ تو قبر میں بدن میں دوبارہ روح ڈالنے پر وہ انسان کیسے زندہ ہو گا اور منکر نکیر کے سوالات کے جوابات کیسے دے گا ؟

جواب

واضح رہے کہ قبر میں سوال اور پھر ثواب یا عذاب کا تعلق عالمِ برزخ سے ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے اور عام طور پر اس عالم کی چیزیں ہمیں اس جہاں میں نظر بھی نہیں آسکتیں ، البتہ قبر میں منکر نکیر کا سوال کرنا اور پھر عذاب یا ثواب ہونا متعدد احادیث سے ثابت ہے اور ہر مومن کو ان پر ایمان لانا ضروری ہے، نیز جمہور اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ قبر میں ثوا ب و عذاب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہےاور قبر و برزخ میں روح کو جسم کی طرف  اس طرح لوٹایا جاتا ہےکہ روح کا بدن سے اتصال اور تعلق قائم کر دیا جاتا ہےجس سے مردہ کو ایک گونہ زندگی حاصل ہوتی ہے ، اس سے وہ سوالات کا جواب دیتا ہے اور ثواب و عذاب بھی محسوس کرتا ہے۔ ( ماخوذ از تسکین الصدور ص:103)

صورتِ مسئولہ میں جب کسی  شخص  کی وفات کے بعد اس کے اعضاء نکال کر کسی دوسرے انسان کے جسم میں لگا دیے جاتے ہیں تب  بھی اس فوت ہونے والے شخص سے اس کی قبر میں سوال ہوتا ہےا ور اسے عذاب یا ثواب دیا جاتا ہے، قبر میں روح جسم میں مکمل طور پر داخل نہیں ہوتی اور انسان دنیاوی زندگی کی طرح زندہ نہیں ہوتا ، بلکہ یہ برزخی حیات ہوتی ہے جس کا اس کے دنیاوی جسم سے تعلق ہوتا ہے، لہذا قبر میں اس شخص کے مکمل اعضاء موجود نہ ہونے سے برزخ کے احوال پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر بھی قادر ہیں کہ اس شخص کو بغیر دل کے ( مثلاً) زندہ کر کے  منکر نکیر کے ذریعہ اس سے سوال کریں  جیسے اگر کسی شخص کی جسم کو جلا کر اس کی راکھ کو ہوا میں اڑا  دیا جائے یا کسی شخص کو درندے چیر پھاڑ کر کھا لیتے ہیں وہ بھی برزخ کے ان تمام احوال سے  گزرتا ہے جس سے قبر میں دفن کیا ہوا انسان  گزرتا ہےاور  اس کے دنیاوی جسم کی حالت سے برزخی احوال پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اگرچہ ہمیں اس بات کا احساس و ادراک نہیں ہوتا۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: « أسرف رجل على نفسه، فلما حضره الموت أوصى بنيه فقال: إذا أنا مت فأحرقوني، ثم اسحقوني، ثم اذروني في الريح في البحر، فوالله لئن قدر علي ربي ليعذبني عذابا ما عذبه به أحدا قال: ففعلوا ذلك به فقال للأرض: أدي ما أخذت فإذا هو قائم، فقال له: ما حملك على ما صنعت؟ فقال: خشيتك يا رب أو قال: مخافتك فغفر له بذلك»".

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ ایک آدمی نے اپنے آپ پر (کثرت گناہ کی وجہ سے) زیادتی کی جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے کہا جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا پھر باریک پیس دینا پھر مجھے ہوا میں اور سمندر میں اڑا دینا اللہ کی قسم اگر میرے رب نے مجھے عذاب دینے کے لئے گرفت کی تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ اس جیسا عذاب کسی کو نہ دیا گیا ہوگا پس اس کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا پس (اللہ نے) زمین سے فرمایا تو نے جو کچھ لیا ہے وہ نکال دے پس فوراً وہ آدمی مجسم کھڑا ہوگیا تو (اللہ نے) اس سے فرمایا تجھے اس عمل پر کس چیز نے برانگیختہ کیا اس نے عرض کیا اے میرے رب تیرے خوف اور ڈر نے اللہ نے اسی وجہ سے اسے معاف فرما دیا"۔

(‌‌‌‌كتاب التوبة، باب في سعة رحمة الله تعالى، وأنها سبقت غضبه، 8/ 97 ، ط: دار الطباعة العامرة)

شرح العقائد النسفیہ میں ہے:

"و الجواب أنه يجوز أن يخلق الله تعالى في جميع الأجزاء أو في بعضها نوعًا من الحياة قدر ما يدرك ألم العذاب أو لذة التنعيم ... حتى أن الغريق في الماء و المأكول في بطون الحيوانات و المصلوب في الهواء يعذب وإن لم نطلع عليه."

(ص:245- 246 ط:بشرى)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں