میرا گاہک کے ساتھ معاملہ ہوا ،سونے کے زیورات کے سلسلے میں، جس کی تفصیل یہ ہے گاہک نے مجھے چوڑیوں کا آرڈر دیا، جس کا وزن 2تولہ 4ماشے تھا ، اس نے ریٹ طے نہیں کیا ،20000 بیعانہ دیا اور کہا جس دن اٹھاؤں گا سارے پیسے ادا کر دوں گا ہم نے چوڑیاں کچھ دنوں میں جس دن کا انہوں نے کہا تھا تیارکر دیں، ہم نے انہیں اطلاع دی کہ آپ کی چیز تیار ہے ،لیکن گاہک 5 ماہ بعد آیا اور کہا میرا مسئلہ بن گیا ہے، میں یہ آرڈر کینسل کرنا چاہتا ہوں،ہم نے ان سے کہا آپ کا آرڈر کینسل ہے ہم نے 5 ماہ آپ کی چیز سنبھالی، اس کی بات نہیں ہے، لیکن اس پر ہمارا بنوانے کا خرچ آیا ہے ،آدھا آپ کے ذمہ ہے ،آدھا ہم برداشت کریں گے تو ہم نے ان سے 35000لیے انہوں نے بخوشی مزدوری دی اور معاملہ ختم کیا ، سوال یہ ہے کے ہمارا 35000 لینا جائز تھا ؟شرعی را ہ نمائی فرمائیں ۔
واضح رہے کہ آرڈر پر کوئی چیز بنوانا "استصناع " کہلاتا ہے جو کہ بیع کی ایک قسم ہے ،اور بیع میں مبیع کی قیمت کا متعین کرنا شرعاً ضروری ہے ،اگر مبیع کی قیمت متعین نہیں ہوگی تو ایسا معاملہ کرنا شرعاً درست نہیں ہوگا ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں جب سائل نے گاہگ سے زیورات بنانے کا آرڈر لیا اور زیورات کی قیمت متعین کیے بغیر بیعانہ دیا تو شرعاً یہ بیع درست نہیں ہوئی ،اس لیے بیعانہ کے طور پر جتنی رقم لی ہے وہ گاہک کو واپس کرنا ضروری ہے ،مزدوری کا خرچہ لینا جائز نہیں ۔
البحرالرائق میں ہے :
"وأما الاستصناع فالكلام فيه في مواضع الأول في معناه لغة فهو طلب الصنعة وفي القاموس الصناعة ككتابة حرفة الصانع وعمله الصنعة. اهـ.
فعلى هذا الاستصناع لغة طلب عمل الصانع وشرعا أن يقول لصاحب خف أو مكعب أو صفار اصنع لي خفا طوله كذا وسعته كذا أو دستا أي برمة تسع كذا ووزنها كذا على هيئة كذا بكذا وكذا ويعطي الثمن المسمى أو لا يعطي شيئا فيقبل الآخر منه."
(كتاب البيع،باب السلم،ج:6،ص:185،دارالكتاب الإسلامي)
شرح المجلۃ للاتاسی میں ہے :
"تسمية الثمن حين البيع لازمة،فلو باع بدون تسمية ثمن كان البيع فاسدا."
(الكتاب الأول في البيوع،الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالثمن،ج:2،ص:158،رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604101810
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن