بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’آرڈرـ گو (Order Go)‘‘ ایپ میں آن لائن تجارت کا حکم


سوال

’’آرڈرـ گو ‘‘ایک ایپ ہے ،جس میں تین طریقوں سے کا م کر سکتے ہیں :

پہلا طریقہ:۔کمپنی میں کچھ بھی رقم جمع نہ کروائی جائے ،صرف کمپنی کا لنک حاصل کر لیا جائے ،کمپنی خود ایڈ ہونے والے اس شخص کے اکاؤنٹ میں ۱۵ ڈالر اپنی طرف سے ڈالے گی ،اور ان ۱۵ ڈالر کے تناسب سے روزانہ کی بنیاد پر کمپنی اس ایڈ ہونے والے شخص کو چالیس اشتہارات بھیجے گی ،یہ شخص ان اشتہارات پر،جو کہ مختلف اشیاء کے اشتہارات ہوتے ہیں ،کلک کرے گاتو اس کو ۴۰ اشتہارات پر کلک کرنے کے بعد ایک ڈالر کاکچھ حصہ (مثلاً ۲۵ فیصد )بطور نفع کمپنی  کی طرف سے دیا جائے گا۔

نوٹ: واضح رہے کہ کمپنی میں کام کرنے والوں کی طرف سے بیا ن کردہ معلومات کے مطابق کمپنی کا کلائنٹ یعنی ایڈ ہونے والا شخص اشتہار پر کلک کرنے کی صورت میں ایمازون اور دراز وغیرہ کمپنیوں سے اس چیز کو ۱۵ ڈالر کے عوض گویا خریدتاہے پھر دوبارہ کلک کرکے آرڈر گو ایپ کمپنی کو یہی چیز  منافع کے ساتھ بیچ دیتاہے۔

دوسراطریقہ:۔آرڈر گو  کمپنی میں شامل ہونے والاشخص اپنے اکاؤنٹ میں پچاس یا سو ڈالر   جمع کروائے توکمپنی ان ڈالروں کے تناسب سے روزانہ کی بنیاد پر ۴۰  اشتہارات اس شامل ہونے والے شخص کو بھیجے گی،یہ ان پر کلک کرے گاتو ان اشتہارات کی اشیاء کی قیمت کے اعتبار سے اس کو منافع دیا جائے گا،یہ منافع اس شخص کے اکاؤنٹ میں ڈالروں کی شکل میں روزانہ کی بنیاد پر جمع ہوتارہے گا،یہ شخص جب چاہے ان ڈالروں کی اپنے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کرسکتا اور نکال سکتا ہے،اس کمپنی میں کام کرنے والوں کاکہنا یہ ہے کہ ہم جو کمپنی میں پیسے رکھواتے ہیں وہ درحقیقت ان اشیاء کی قیمت کے طور پر کمپنی کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتے ہیں جن اشیاء کے اشتہارات پر کلک کرتے ہیں گویا  کہ کمپنی سے یا اس کے لنک سے ان اشیاء کو خریدلیتے ہیں ،پھر چوں کہ ایمازون کمپنی کالنک آرڈر گو کمپنی کے ساتھ ہوتاہے تو جیسے ہی ہم ان اشتہارات پر کلک کرتے ہیں تو ایمازون اور دیگر کمپنیاں ان اشیاء کو گویا ہم سے خرید لیتی ہیں اور ان کا معاوضہ اور قیمت ہمارے اکاؤنٹ میں جمع کرادیاجاتاہے، جو بعد میں ہم اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کرکے پاکستاننی رقم کی شکل میں حاصل کر لیتے ہیں۔

تیسرا طریقہ:۔آرڈر گو کمپنی میں مارکیٹنگ کرتے ہیں :جو شخص مارکیٹنگ کے ذریعے سے جتنے لوگوں کواس کمپنی  کالنک دے گا اتنے لوگو ں کا ماہانہ کی بنیاد پر کمیشن ،شامل کرنے والوں اور کمپنی کا لنک  دینے والوں کو دیاجائے گا ،یہ کمیشن شامل ہونے والے لوگوں کے پیسوں اور ان کے منافع سے نہیں کاٹا جاتا بلکہ کمپنی کی طرف سے دیا جاتاہے،کمپنی کے کمیشن ایجنٹ کاکہنا ہے کہ ہم جس کو کمپنی میں شامل کرتے ہیں تو اس پر ہمیں کافی محنت کرنی پڑتی ہے ،اور بار بار محنت کرنی پڑتی ہے،یعنی جس وقت وہ ہم سے کا م کے متعلق پوچھے ہم پابند ہیں کہ اس کو کام سمجھائیں اور پیش آمدہ مشکلات کو حل کریں۔

برائے مہربانی شرعاً اس کمپنی کے طریقہ کا ر کا حکم  بتادیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ’’آرڈر گو ایپ‘‘ کےذریعےکام کرنے کےطریقے بیان کیے گئے جن سے منافع کمانے کی تفصیل یہ ہے:

  اولًا اشتہارات میں جان دار کی تصاویر اور بہت سے غیر شرعی اشتہارات ہوتے ہیں، اس لیے اشتہارات پر کلک کرکے کمانا جائز نہیں ہے، اگر  اشتہارات  جان دار کی تصویر اور فحش چیزوں سے خالی  ہو تو بھی  اشتہارات    پر کلک  کرنے کے ساتھ جو کمائی مشروط ہو، وہ مندرجہ ذیل خرابیوں کی وجہ سے حلال اور طیب نہیں ہے  :

۱) اشتہارات پر کلک  کے بدلہ جو عوض ملتا ہے وہ شرعًا اجرت ہوگی اور اجرت کا معاملہ  درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اجرت جس کام کے بدلہ مل رہی ہے اس کام پر اجارہ معمول بہ ہو اور وہ کام ایسا ہو جس کو عقلِ سلیم معتدبہ کام تسلیم کرے۔ اشتہار  پر کلک کرنا اور  کوئی ایسا معتد بہ کام نہیں ہے جس پر اجارہ کا معاملہ جائز ہو اور نہ ہی یہ کوئی معمول بہ کام ہے جس پر اجارہ کا معاملہ ہوتا ہو؛  لہذا یہ اشتہار  پر کلک کر نےوالے اجارہ کا معاملہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی اور اس  وجہ  سے یہ منافع جائز نہیں ۔

۲) کوئی چیز بائع( فروخت کرنے والے) کے پاس موجود   ہی نہ ہو تو وہ محض  اس چیز کا اشتہار  دکھا کر  آگے فروخت کرے  تو شرعاً ایسی خرید وفروخت  جائز نہیں کیوں کہ اس میں قبضہ نہیں ہوتا،  لہٰذا مذکورہ کمپنی کی طرف سے ملنے والے اشتہارات پر محض  پہلی مرتبہ کلک کرنے سے’’خریدلینا‘‘اوردوسری مرتبہ کلک کرنےسے  ’’فروخت کرلینا ‘‘ کا طریقہ بھی شرعاً جائز نہیں اور اس کے منافع حاصل کرنا بھی جائز نہیں  ۔

۳) نیز اس معاملے میں جس طریق پر اس ایپ  کی پبلسٹی کی جاتی ہے، جس میں پہلے ایڈ ہونے والےکوہر نئے شخص کے ایڈ کرنے پرکمیشن ملتا رہتا ہے اور اس عمل میں ایڈ کرنے والے لوگ محض لوگوں کو ایڈ کرکے نفع کماکر  زیادہ سے زیادہ مال ہتھیانے کے  درپے  ہوتےہیں ،خرید و فروخت اور کسی  بھی معتد بہ محنت والے عمل میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، لہٰذا ایسی صورت میں بھی کمیشن لینا یا لوگوں کوایڈکرنے کی اجرت لینا شرعاً جائز نہیں ۔

لہٰذا سوال میں مذکور آرڈر گو ایپ کے ذریعے منافع کمانا جائز نہیں ۔

شعب الایمان میں ہے:

"عن سعيد بن عمير الأنصاري، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور."

(كتاب الإيمان،التوكل بالله عزوجل و التسليم لأمره تعالي في كل شيئ،434/2،ط:مكتبة الرشد،رياض)

’’ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع‘‘۔

علامہ طیبی رحمہ اللہ نے  شرح مشکوۃ میں مبرور کایہ  معنی بیان کیا ہے:

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لا يكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به."

(كتاب البيوع،باب الكسب و طلب الحلال،2112/7،ط:مكتبة نزار مصطفى الباز مكة المكرمة )

حجۃ اللہ البالغہ میں ہے:

"ومنها أن ‌يقصد ‌بهذا ‌البيع معاملة أخرى يترقبها في ضمنه أو معه".

(القسم الثاني ،البيوع المنهي عنه،ج:2،ص:169،ط:دار الجيل۔بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في أجرة الدلال ، قال في التتارخانية : وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل ، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم .وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار ، فقال : أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

(كتاب الإجارة،مطلب في أجرة الدلال،63/6،ط: سعيد)

موسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لا يستحق به أجرة . ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولا يجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها ، ولا على حمل الخنزير". 

(كتاب الإجارة ،الإجارة علي المعاصي و الطاعات،290/1،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية۔الكويت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100927

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں