بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا قبرستان جانا


سوال

 کیا عورتوں کا قبرستان جانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

عورتوں کے قبرستان میں جانے سے اگر غم تازہ ہو اور وہ بلند آواز سے روئیں تو ان کے لیے  قبرستان جانا  گناہ ہے؛ کیوں کہ حدیث میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے جو قبرستان اس لیے جائیں؛  تاکہ غم تازہ ہو۔  چوں کہ ان میں صبروتحمل کم ہوتا ہے، اس لیے گھر ہی سے ایصال ثواب کرنا چاہیے۔ نیز عورتوں کے لیے جب مساجد میں جماعت سے نماز کے لیے جانا مکروہِ تحریمی ہے تو قبرستان کی زیارت کے لیے گھر سے نکلنے میں بدرجہ اولیٰ کراہت ہوگی، کیوں کہ یہ ضرورتِ شرعیہ نہیں ہے جس کی بنا پر عورتوں کا قبرستان جانے کو بلا کراہت جائز قرار دیا جاسکے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عباس، قال: ’’لعن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیها المساجد والسرج.‘‘

(باب ما جاء في كراهية أن يتخذ على القبر مسجدا/جلد:2/ صفحہ:136/ رقم الحدیث:320/ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)
ترجمہ: ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔‘‘
اسی حدیث کے پیشِ نظر عورتوں کے قبروں پر جانے کے بارے میں اکثر اہلِ علم حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے؛ کیوں کے عورتیں ایک تو شرعی مسائل سے کم واقف ہوتی ہیں، دوسرے ان میں صبر، حوصلہ اور برداشت کم ہوتا ہے، ان کے حق میں غالب اندیشہ یہی ہے کہ وہ قبرستان جاکر جزع وفزع کریں گی یا کوئی بدعت کریں گی، اسی لیے انہیں قبرستان جانے سے منع کر دیا گیا۔

البتہ اگر کوئی بوڑھی عورت عبرت اور تذکرہ آخرت کے لیے قبرستان جائے تو اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ وہ جزع فزع نہ کرے، اور جوان عورت کے لیے  جانے میں بہر حال  کراہت ہے۔

صحیح مسلم شریف میں ہے:

حدثنا محمد بن فضيل، عن أبي سنان وهو ضرار بن مرة، عن محارب بن دثار، عن ابن بريدة، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها، ونهيتكم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث، فأمسكوا ما بدا لكم، ونهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء، فاشربوا في الأسقية كلها، ولا تشربوا مسكرا»

(باب استئذان النبي صلى الله عليه وسلم ربه عز وجل في زيارة قبر أمه،ج:2/ صفحہ:672/ رقم الحدیث:106/ط:  دار إحياء التراث العربي - بيروت)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

والترحم وفيه دليل لمن جوز للنساء زيارة القبور وفيها خلاف للعلماء وهي ثلاثة أوجه لأصحابنا أحدها تحريمها عليهن لحديث لعن الله زوارات القبور والثاني يكره والثالث يباح ويستدل له بهذا الحديث وبحديث كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها ويجاب عن هذا بأن نهيتكم ضمير ذكور فلا يدخل فيه النساء على المذهب الصحيح المختار في الأصول.  والله أعلم.

(كتاب الجنائز، جلد:7/ صفحہ:45/ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"(قوله: وقيل: تحرم على النساء إلخ) قال الرملي: أما النساء إذا أردن زيارة القبور إن كان ذلك لتجديد الحزن والبكاء والندب على ما جرت به عادتهن فلاتجوز لهن الزيارة، وعليه حمل الحديث: «لعن الله زائرات القبور»، وإن كان للاعتبار والترحم والتبرك بزيارة قبور الصالحين فلا بأس إذا كن عجائز، ويكره إذا كن شواب، كحضور الجماعة في المساجد".

(کتاب الجنائز،(باب)الصلاة علي الميت في المسجد/ج:2/ صفحہ:210/ط:دار الكتاب الإسلامي)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں