بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپریشن کے سبب جدا ہونے والے انسانی اعضاء کا حکم


سوال

 میں ایک ہسپتال میں کام کرتا ہوں اور اس وقت  شعبہ اخلاقیات کے سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہوں، ہمارے ہسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر آپریشن اور بائیوپسی کی جاتی ہے ،جس سے انسانی پیتھولوجیکل فضلہ انسانی ٹشوز کی صورت میں نکلتا ہے اور شاذ و نادر ہی انسانی اعضاء  ضائع بھی  ہوتے ہیں، یہ ٹشوز اور اعضاء کئی بار ناقابل شناخت ہوتے ہیں، کیا میں اس کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کو جان سکتا ہوں کہ کیا ہم انہیں محفوظ کریں گے یا دفن کریں گے (مریض یامریض کے  خاندان کی رضامندی کے بعد)؟

جواب

واضح رہے کہ انسانی اعضا بھی انسان ہی کی طرح معزز مکرم ہے، جس طرح  انسان کو موت کی صورت میں دفن کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح انسان کے اعضاءاور اس کے متعلقات ، جب کسی بھی   وجہ سے اس کے جسم سےجدا ہوجاۓ یا کیے جاۓ، تو  اس كو  دفن کرنا ضروری ہے، چاہے  مریض یا مریض کی فیملی اجازت دیں یا نہ دیں، اور ان کو محفوظ رکھنا درست نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپریشن یا بائیوپسی کے سبب  زندہ انسان کے اعضاء یا   اس کے متعلقات   جو اس کے جسم سے جدا کیے جاتے ہیں، اور واپس اسی انسان میں لگاۓ جانے کے قابل نہیں ہوتے ، تو ان کو ہر حال میں  دفن کرنا ضروری ہے، ان کو محفوظ رکھناکسی بھی وجہ سے چاہے  تجربات یا  تعلیم   وغیرہ کے لیے جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما عظم الآدمي وشعره، فلا يجوز بيعه ‌لا ‌لنجاسته؛ ‌لأنه ‌طاهر في الصحيح من الرواية لكن احتراما له والابتذال بالبيع يشعر بالإهانة، وقد روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «لعن الله الواصلة، والمستوصلة."

(كتاب البيوع،فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه،142/5،سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجد رأس آدمي) أو أحد شقيه (لا يغسل ولا يصلى عليه) بل يدفن إلا أن يوجد أكثر من نصفه ولو بلا رأس."

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ ،199/2 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں