بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت سے زبردستی زنا کیا ہو اور اس نے قدرت نہ دی ہو تو وہ گناہ گار نہیں ہوگی


سوال

اگر کسی لڑکی کو اس کے  بھائی نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس بارے میں اسے بولنے کی ہمت نہ ہو اور وہ خاموش رہے تو کیا  اس کے لیے گناہ ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بہن کو زنا پر مجبور کیا گیا تھا اور اس نے بھائی  کو کسی طرح بھی قدرت نہیں دی تھی بلکہ بھائی نے زبردستی اس کے ساتھ زنا کیا تو بہن گناہ گار نہیں ہوگی،بھائی گناہ گار ہوگا۔ بھائی کو چاہیے اس پر خوب توبہ استغفار کرے اور دونوں تنہائی میں ایک دوسرے سے ہرگز   نہ ملیں۔ بہن کو چاہیے کہ وہ اس کا پورا خیال رکھے کہ آئندہ ایسی حرکت کے  اعادے کا  ہرگز موقع نہ ملے،  اور اگر بھائی اپنی بری عادت سے باز نہیں آتا  ہو تو بہن اپنے قریبی رشتہ دار کو آگاہ کر کے ان سے مدد لے، چپ نہ بیٹھی رہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) أي عن وائل (أن امرأة خرجت على عهد النبي صلى الله عليه وسلم تريد الصلاة) حال أو استئناف تعليل (فتلقاها رجل) أي فقابلها (فتجللها) أي فغشيها بثوبه فصار كالجل عليه (فقضى حاجته منها) قال القاضي: أي غشيها وجامعها كنى به عن الوطء كما كنى عنه بالغشيان (فصاحت) أي بعد تخليتها (وانطلق) أي الرجل (ومرت عصابة) بكسر أوله أي جماعة قوية (من المهاجرين، فقالت: إن ذلك الرجل فعل بي كذا) أي من الغشيان (وكذا) أي من قضاء الحاجة (فأخذوا الرجل فأتوا به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لها: اذهبي فقد غفر الله لك) لكونها مكرهة (وقال) أي لأصحابه (للرجل الذي وقع عليها) أي في حقه (ارجموه) ومعناه أنه أقر بالزنا، فأمر برجمه، فرجموه لكونه محصنا (قال: لقد تاب توبة) أي باعترافه أو بإجراء حده (لو تابها) أي لو تاب مثل توبته (أهل المدينة) أي أهل بلد فيهم عشار وغيره من الظلمة (لقبل منهم) وقال ابن الملك: لو قسم هذا المقدار من التوبة على أهل المدينة لكفاهم اه ولا يخفى أنه ليس تحته شيء من المعنى فإن التوبة غير قابلة للقسمة والتجزئة فأما ما ورد: استغفروا لماعز بن مالك لقد تاب توبة لو قسمت بين أمة لوسعتهم. فلعله محمول على المبالغة أو على التأويل الذي ذكرنا، والله تعالى أعلم (رواه الترمذي وأبو داود) وكذا النسائي".

(کتاب الحدود، ج:6، ص:2345، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو أكره على الزنا لا يرخص له) لأن فيه قتل النفس بضياعها لكنه لا يحد استحسانا، بل يغرم المهر - ولو طائعة - لأنهما لا يسقطان جميعا. شرح وهبانية (وفي جانب المرأة يرخص) لها الزنا (بالإكراه الملجئ) لأن نسب الولد لا ينقطع فلم يكن في معنى القتل من جانبها بخلاف الرجل (لا بغيره لكنه يسقط الحد في زناها لا زناه) لأنه لما لم يكن الملجئ رخصة له لم يكن غير الملجئ شبهة له. 

(قوله: لأنه لما لم يكن الملجئ رخصة له إلخ) تعليل لقوله لا زناه، وإذا لم يرخص له يأثم في الإقدام عليه وأما المرأة هل تأثم ذكر شيخ الإسلام إن أكرهت على أن تمكن من نفسها، فمكنت تأثم وإن لم تمكن وزنى بها فلا وهذا لو بملجئ وإلا فعليه الحد بلا خلاف لا عليها ولكنها تأثم هندية".

(كتاب الاكراه، ج:6، ص:137، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101677

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں