بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت نکاح کا خطبہ یا کسی کا نکاح کرسکتی ہے؟


سوال

کیا عورت نکاح کا خطبہ یا کسی کا نکاح کرسکتی ہے؟

جواب

 نکاح کا خطبہ دینے کے لیے مرد ہونا شرط نہیں ہے، لہذا کوئی عورت بھی نکاح کا خطبہ   پڑھ سکتی ہے، اور اس کے نکاح کرانے سے نکاح تو ہوجائے گا، لیکن اگر نابالغ بچے یا بچی کا نکاح کرائے تو ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا، نکاح کرانے والی عورت اگرچہ دولہا یا دلہن کی ماں ہو، تب بھی وہ ولی نہیں بن سکتی، نکاح کرانے میں ولی بننے کے لیے مرد ہونا ضروری  ہے،  لہذا بیٹے یا بیٹی  کے نکاح کا ولی اس کا باپ ہے ۔’’ولی‘‘ ولایت سے  ہے  اور ولایت سرپرستی کو  کہتے ہیں، نکاح میں دولہے یا دولہن کا ولی اس دولہے یا دولہن کا وہ سرپرست ہے  جس کو شریعت نے سرپرست مقرر کیا ہے ،  یعنی  اگر بیٹا ہو  (مثلاً: کسی بیوہ یا مطلقہ کا نکاح ہورہاہو) تو سب سے پہلے ولایت  بیٹے کو حاصل ہوگی۔  اور اگر  کنواری کا نکاح ہورہاہو  تو باپ ولی ہوگا، وہ نہ ہو تو دادا۔  اور اگر وہ بھی نہ ہو تو  سگا بھائی، اور اگر وہ بھی نہ ہو تو باپ شریک بھائی،  اور اگر وہ  بھی نہ ہو تو سگے بھائی کا بیٹا (بھتیجا)، اور اگر وہ نہ ہو تو باپ شریک بھائی کا بیٹا، اور اگر وہ نہ ہو تو سگا  چچا، وہ بھی نہ ہو تو چچا کا بیٹا …الخ۔ یعنی ولایت کی وہی ترتیب ہے جو میراث میں عصبہ بنفسہ  کی ہوتی ہے۔ عصبہ اس قریبی خونی رشتہ دار کو کہتے ہیں جس سے رشتے میں عورت کا واسطہ درمیان میں نہ آتاہو،  وہ درجہ بدرجہ ولی بنتاہے۔

بہرحال نکاح ساری زندگی کے لیے دو خاندانوں کے تعلق اور نباہ کا نام ہے، اس میں بہت سے مصالح پیشِ نظر ہوتے ہیں، جو بچے یا بچی کا ولی زیادہ بہتر سمجھتاہے، لہٰذا عورت کو ولی کے ہوتے ہوئے یہ اقدام نہیں کرنا چاہیے، خصوصًا جب کہ بعض ائمہ مجتہدین کے ہاں عورت کا کرایا گیا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔

نیز خطبۂ نکاح پڑھنے میں آواز بلند ہونا فطری ہے، اور مجلسِ نکاح کو صرف محارم تک محدود رکھنا اور عورت کی آواز کا غیر محرموں تک نہ پہنچنے دینا نادر الوقوع ہے، عورت کی آواز اگرچہ راجح قول کے مطابق ستر نہیں ہے، لیکن خوفِ  فتنہ وغیرہ عوارض کی وجہ سے فقہاءِ کرام نے بلاضرورتِ شدیدہ غیر محرم تک عورت کی آواز پہنچنے سے منع کیاہے، اور ضرورت کے موقع پر بھی غیر محرم سے بقدرِ ضرورت سخت لہجے میں بات کرنے کی اجازت دی گئی ہے، لہٰذا خطبۂ نکاح مرد ہی کو پڑھنا چاہیے۔

 الموسوعة الفقهية الكويتية (۴۱ / ۲۷۵،طبع الوزارة :

"قال الحنفية: الولي في النكاح العصبة بنفسه وهو من يتصل بالميت حتى المعتق بلا توسط أنثى على ترتيب الإرث والحجب، فيقدم الابن على الأب عند أبي حنيفة وأبي يوسف خلافاً لمحمد حيث قدم الأب، وفي الهندية عن الطحاوي: إن الأفضل أن يأمر الأب الابن بالنكاح حتى يجوز بلا خلاف، وابن الابن كالابن، ثم يقدم الأب، ثم أبوه، ثم الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم ابن الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم العم الشقيق، ثم لأب، ثم ابنه كذلك، ثم عم الأب كذلك، ثم ابنه كذلك، ثم عم الجد كذلك، ثم ابنه كذلك".

الموسوعة الفقهية الكويتية (19/ 189):

"يستحب أن يخطب العاقد أو غيره من الحاضرين خطبة واحدة، بين يدي العقد، وإن خطب بما ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم فهو أحسن."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں