بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے اپنے والدین کے گھر جانے اور شوہر سے کھانے کے مطالبہ کا حکم


سوال

1- عورت کا اپنے والدین کے گھر جانے کا شرعی حق کیا ہے، جب کہ فون پر بھی بات ہوتی ہو؟ اور اگر بات نہ ہو تب بھی؟

2- اگر میاں بیوی کے درمیان شوہر کے دوستوں کی وجہ سے اکثر جھگڑا رہتا ہو، ایسے میں بیوی یہ مطالبہ کرے کہ دوستوں سے ملنا ملانا، کھانا پینا 15 دن میں کرلیا کریں تو بیوی اس طرح کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتی ہے یا نہیں؟ اگر رکھتی ہے تو شوہر نہ مانے تو گناہ گار ہوگا؟

3-بیوی کا حق ہے کہ شوہرجو کھائے وہی بیوی کو کھلائے، اب جو آئے دن دوستوں کے ساتھ باہر کھانا پینا کرےتو بیوی اس کھانے پینے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ 

جواب

1۔ فون پر بات ہو یا نہ ہو ہفتہ میں ایک بار عورت کا اپنے والدین سے ملاقات  اس کا شرعی حق ہے، والدین اگر خود ملاقات کے لیے آسکتے ہیں  تو وہ خود ملاقات  کے لیے آئیں، کسی عذر کی بنا پر  ان کا ملاقات کے لیے آنا ممکن نہ ہو تواگر مسافتِ سفر  (48 میل ) ہو یا فتنہ کا اندیشہ ہو تو عورت کسی محرم  کے ساتھ،  ورنہ بغیر محرم کے بھی   والدین  کی ملاقات کے لیے جاسکتی ہے، اور دیگر  محارم سے سال  میں ایک  مرتبہ ملاقات کرنا عورت کا  حق  ہے، اس کے علاوہ ملاقات کرنا عورت کا حق نہیں ہے، تاہم شرعی حدود میں رہتے ہوئے  شوہر کی اجازت سے  کبھی چلی جائے تو اس کی  اجازت ہے، بشرط یہ کہ  وہاں کوئی فتنہ اور مفسدہ نہ ہو۔

بہتر یہی ہے کہ  باہمی رضامندی سے اس کے لیے کسی مدت کا تعین کرلیا جائے، جس میں امور خانہ داری بھی متاثر نہ ہو ں اور بیوی کی حق تلفی بھی نہ ہو۔ تاہم اگر والدین کے گھر جانے سے فتنے کا اندیشہ ہو  یا شوہر   خدمت کا محتاج ہو اور  بیوی کے جانے سے اسے ضرر لاحق ہو تو بیوی کے والدین کو چاہیے کہ وہ خود بیٹی کو دیکھنے کے لیے آجایا کریں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (4 / 212):

"قالوا: الصحيح أنه لايمنعها من الخروج إلى الوالدين ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة وفي غيرهما من المحارم في كل سنة وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وعليه الفتوى، كما في الخانية.
 وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لايقدرا (( يقدر )) على اتيانها فإن كانا يقدران على اتيانها لا تذهب وهو حسن فإن بعض النساء لا يشق عليها مع الأب الخروج وقد يشق ذلك على الزوج فتمتنع  وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما وقد أشار إلى نقله في شرح المختار والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت وإن لم يكونا كذلك ينبغي أن يؤذن لها في زيارتهما الحين بعد الحين على قدر متعارف أما في كل جمعة فبعيد فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابةً والزوج من ذو (( ذوي)) الهيآت ((الهيئات)) بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر  ولو كان أبوها زمنًا مثلًا وهو يحتاج إلى خدمتها والزوج يمنعها من تعاهده فعليها أن تعصيه مسلمًا كان الأب أو كافرًا، كذا في فتح القدير، وقد استفيد مما ذكرناه أن لها الخروج إلى زيارة الأبوين والمحارم فعلى الصحيح المفتي به تخرج للوالدين في كل جمعة بإذنه وبغير إذنه ولزيارة المحارم في كل سنة مرةً بإذنه وبغير إذنه وأما الخروج للأهل زائدًا على ذلك فلها ذلك بإذنه."

2- میاں بیوی کارشتہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، اور اس کے دوام اور پختگی کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کالحاظ کرنا اور باہمی الفت و محبت کو قائم رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ مشکاۃ شریف کی روایت میں حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ "رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے  مخاطب (شخص)! تو نے نکاح کی مانند ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ہوگی جو دو محبت کرنے والوں کے درمیان محبت کو زیادہ کرے۔"

 مطلب یہ ہے کہ نکاح کے ذریعہ جس طرح خاوند اور بیوی کے درمیان بغیر کسی قرابت کے بے پناہ محبت والفت پیدا ہو جاتی ہے، اس طرح کا کوئی تعلق ایسا نہیں ہے جو دو شخصوں کے درمیان جو ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہوں، اس درجہ کی محبت والفت پیدا کر دے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ اسلام میں نکاح اور شادی کے بعدبیوی کی خبرگیری اور اس کانان ونفقہ رہائش وغیرہ کی ذمہ داری شوہرپرہے، اگرشوہردن میں معاش کی غرض سے باہر رہتا ہو تو رات اپنے گھر پر گزارنا ضروری ہے، بلاضرورت گھرکے علاوہ کہیں اورقیام درست نہیں۔

اگرکوئی شخص اپنے کام کاج کی مصروفیات کے ساتھ اہل وعیال کاخیال رکھتاہو ان کی دیکھ بھال کرتاہو اور ان کی ضروریات پوری کرتاہو کسی شکایت کاموقع نہ دیتاہو تو ایساشخص شرعی احکامات پرعمل پیرا شمار ہوگا، تاہم بیوی بچوں کو وقت دینا اور اُن کی خبرگیری مرد پر لازم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہے کہ آپ گھروالوں کے ساتھ گفتگو فرماتے،ان کی خبرگیری فرماتے، گھریلوکاموں میں ان کاہاتھ بٹاتے، ہنسی مذاق فرماتے، دل لگی  فرماتے، اور ساتھ ہی دیگر تمام امور بھی سرانجام دیاکرتے تھے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کی سیرت میں  ہمارے لیے بہترین نمونہ اور اسوہ موجودہے۔

لہذا اگر شوہر اہل و عیال کی خبرگیری اور بیوی کو وقت دینے کے بجائے زیادہ وقت خصوصاً رات کے اوقات گھر سے باہر گزارتا ہے تو بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اس سے منع کرسکتی ہے، اگر شوہر بیوی کا حق ادا نہ کرے تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر شوہر ضرورت کی بنا پر یا دیگر دنیاوی امور کی بنا پر دوستوں سے میل جول رکھتا ہو اور اس میل جول کی وجہ سے گھریلو ذمہ داریوں پر کوئی فرق نہ پڑے نیز بیوی کی حق تلفی بھی نہ ہو تو اس صورت میں بیوی کی طرف سے بلاوجہ روک ٹوک درست نہ ہوگی۔

یہ یاد رکھیں کہ شریعت میں ازدواجی رشتے سے ایک اہم مقصود یہ بھی ہے کہ میاں بیوی دونوں نیک کاموں میں ایک دوسرے کے مددگار ہوں اور برے کاموں سے ایک دوسرے کو بچائیں، بسااوقات فریقین میں سے ایک نیک اور دوسرا فریق برائی میں مبتلا ہوتاہے، تو دوسرے فریق کو حکمت سے سمجھاناچاہیے، لہذا اگر آپ کے شوہر دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں تو آپ انہیں حسنِ تدبیر اور اچھے اخلاق کے ذریعہ سمجھانے کی  کوشش کریں۔ کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کرنے سے اجتناب کریں جس سے طریقے سے بداعتمادی یا باہمی اختلاف اور نزاع کا خدشہ ہو۔

3۔ بیوی کے نان و نفقہ کے سلسلہ میں فقہاء کرام نے جو حکم لکھا ہے وہ درج ذیل ہے :

نان نفقہ سے مراد وہ خرچہ ہے جو کہ شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو فراہم کرے، اس میں اس کا کھانا پینا، رہائش، اور کپڑوں کی ضروریات شامل ہیں۔

 شرعاً اس  کی کوئی  مخصوص مقدار مقرر نہیں، بلکہ میاں بیوی اگر دونوں مال دار  ہیں تو اسی حساب سے نفقہ دینا ہوگا، دونوں تنگ دست ہیں تو اپنی وسعت کے مطابق ادا کرنا ہوگا، اور اگر ایک مال دار دوسرا تنگ دست ہے تو متوسط طبقہ کے مطابق نفقہ دینا ہوگا،  اگر دونوں فریق کسی مقدار پر متفق ہوجائیں تو اسی کو طے کرلیں۔

چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"اس پر تو اتفاق ہے کہ میاں بیوی دونوں امیر مال دار ہوں تو نفقہ امیرانہ واجب ہوگا اور دونوں غریب ہوں تو نفقہ غریبانہ واجب ہوگا، البتہ جب دونوں کے حالات مالی مختلف ہوں تو اس میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ صاحب ہدایہ نے خصاف کے اس قول پر فتویٰ دیا ہے کہ اگر عورت غریب اور مرد مال دار ہو تو اس کا نفقہ درمیانہ حیثیت کا دیا جائے گا کہ غریبوں سے زائد مال داروں سے کم اور کرخی کے نزدیک اعتبار شوہر کے حال کا ہوگا فتح القدیر میں بہت سے فقہاء کا فتویٰ اس پر نقل کیا ہے واللہ اعلم (فتح القدیر ص ٤۲۲ج ۳)"۔(معارف القرآن ، سورہ بقرہ 233)

لہذا شوہر پر نان نفقہ کا وجوب مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق ہی ہوگا، دوستوں کے ساتھ کھانے پینے کو بنیاد بناکر اس کھانے کے مطالبے کا حق نہ ہوگا۔ البتہ اگر شوہر اپنی رقم دوستوں پر صرف کرتا ہو اور گھریلو اخراجات میں ہاتھ تنگ رکھتا ہو یا شرعی اعتبار سے جو نان نفقہ ادا کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد ہے اس ذمہ داری کو نہ نبھاتا ہوتو اس صورت میں شوہر گناہ گار ہوگا۔

"تجب علی الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمیة والفقیرة والغنیة دخل بها أو لم یدخل، کبیرةً کانت المرأة أو صغیرةً، یجامع مثلها، کذا في فتاویٰ قاضي خان. سواء کانت حرةً أو مکاتبةً، کذا في الجوهرة النیرة".

 ( الفتاویٰ الهندیة، کتاب الطلاق / الباب التاسع عشر في النفقات ، الفصل الأول ۱ /۵۴۴) 

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر : واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين، وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسراً والآخر معسراً، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسراً وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين، وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة". (574/3)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں