بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کی آواز مردوں کو سنوانا


سوال

میں آپ کو کینیڈا سے لکھ رہا ہوں،  ہمارے شہر میں ایک مفتی صاحب نے ایک ادارہ  قائم کیا ہے، جس میں درس نظامی پڑھایا جاتا ہے، گزشتہ سال ان کے ادارہ کے چند طلباء اور طالبات کا ختم بخاری تھا۔ اس تقریب میں مردوں کے بیٹھنے کا الگ انتظام تھا اور عورتوں کا الگ۔ لیکن اس تقریب میں طالبات کو بذریعہ اسپیکر احادیث کی عبارات کو پڑھنے کا موقع دیا گیا اور ان طالبات کی آواز مسجد میں موجود قریب 200مردوں نے سنی۔ علماءِ کرام سے گزارش ہے کہ  ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ کیا اس طرح جوان لڑکیوں کی آواز اس طرح مردوں میں سنوانا درست ہے یا نہیں؟ 

جواب

عورت کی آواز اگرچہ راجح قول کے مطابق ستر نہیں،   لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز اُمور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں معروف و مشہور ہے،  اِس لیے اگر شرعی ضرورت نہ ہو تو عورت کی آواز کابھی غیر محرم سے پردہ ہے۔

لہذا کسی مخلوط اجتماع میں یا اجتماع مخلوط نہ ہو، مگر عورت کی آوازاتنی بلند ہو جو مردوں کو سنوائی دے رہی ہو دونوں عمل درست نہیں ہے۔ البتہ  خالص عورتوں کے مجمع میں (جب کہ اس کی آواز مجلس سے باہر نہ جائے)  عورت کا باآوازِ  بلند احادیث وغیرہ پڑھنا جائزہے۔

نیز بوقتِ ضرورت جب عورت غیر محرم سے بات کرے تو بھی اسے حکم ہے کہ آواز نرمی پیدا کیے بغیر صاف اور سیدھی بات کرے جس سے مخاطب کے دل میں کسی قسم کی طمع یا میلان پیدا نہ ہو، ایسا انداز اختیار کرنا جس سے عورت کی آواز سن کر اجنبی کی توجہ اس طرف ہو، درست نہیں ہے۔

مذکورہ صورت میں تقریب میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ انتظام کے باوجود بذریعہ اسپیکر طالبات کا احادیث کی عبارات پڑھنا اور مردوں کے مجمع میں اس آواز کا سنا جانا یہ عمل شرعاً درست نہیں ہے، اور نہ ہی شرعی طورپر طالبات کا احادیث کی عبارات بلند آواز سے پڑھنا لازم ہے، جس کے لیے اس عمل کی گنجائش ہو۔

اس لیے آئندہ تقریبات میں اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عورتوں کی آواز مردوں کے مجمع میں نہ جائے۔ دینی تقریبات میں شرعی حدود کا لحاظ رکھنا اور زیادہ ضروری ہے،  ورنہ ایسی تقریبات ثواب اور نیکی کی بجائے انسان کے لیے گناہ اور جرم کا باعث بن جاتی ہیں۔ 

التفسير المظهرى ـ (1 / 1311):
"(مسألة) قال فى النوازل: نغمة المرأة عورة، ولهذا قال عليه السلام: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء، قال ابن الهمام: وعلى هذا لو قيل: إن المرأة إذا جهرت بالقراءة فى الصلاة فسدت كان متجهًا".

التفسير المظهرى ـ (1 / 2713):
"قال البغوي كانت المرأة إذا مشت ضربت برجلها لتسمع صوت خلخالها فنهيت عن ذلك؛ لأنه يورث في الرجال ميلاً إليها. قال البيضاوي: وهو أبلغ من النهى عن إبداء الزينة وأدل على المنع من رفع الصوت لها، ولذا صرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليها أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إليّ؛ لأن نغمتها عورة، ولذا قال عليه السّلام: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء. متفق عليه من حديث سهل بن سعد. فلايحسن أن يسمعها الرجل، قال ابن همام: وعلى هذا لو قيل: إذا جهرت المرأة بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجهًا".

روح المعانى ـ  (9 / 340):
"والمذكور في معتبرات كتب الشافعية وإليه أميل أن صوتهن ليس بعورة فلايحرم سماعه إلا إن خشي منه فتنة، وكذا إن التذّ به كما بحثه الزركشي. وأما عند الحنفية فقال الإمام ابن الهمام: صرح في النوازل أن نغمة المرأة عورة، ولذاقال النبي صلّى اللّه عليه وسلّم: «والتكبير للرجال والتصفيق للنساء»؛ فلايحسن أن يسمعها الرجل اهـ".

مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح - (8 / 1000):
"فإن المرأة لاتجهر بها بل تقتصر على إسماع نفسها. وقال ابن رشد: أجمع أهل العلم على أن تلبية المرأة فيما حكاه أبو عمر هو أن تسمع نفسها بالقول. وفي الدر المختار: ولاتلبي جهرًا بل تسمع نفسها دفعًا للفتنة".
رد المحتار - (3 / 255):
"(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر: وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: "التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء"، فلايحسن أن يسمعها الرجل. ا هـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهرًا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر".

فتح القدير لكمال بن الهمام - (1 / 496):
"[ فرع ] صرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من الأعمى، قال: لأن نغمتها عورة، ولهذا قال عليه الصلاة والسلام: {التسبيح للرجال والتصفيق للنساء}؛ فلايحسن أن يسمعها الرجل، انتهى كلامه. وعلى هذا لو قيل: إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجهًا، ولذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام لسهوه إلى التصفيق".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (1 / 285):
"وصرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى، ولهذا قال: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء؛ فلايجوز أن يسمعها الرجل.  ومشى عليه المصنف في الكافي فقال: ولاتلبي جهرًا؛ لأنّ صوتها عورة".

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (5 / 144):
"المرأة إذا أرادت تعلّم القرآن من الأعمى جاز، ولكنّ التعلم من المرأة أولى؛ لأنّ صوتها عورة". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201906

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں