بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے جسم کے بالوں کے کاٹنے کا حکم


سوال

مفتی صاحب شادی شدہ عورت اور غیر شادی شدہ عورت دونوں ہی کیلۓ سر کے بال اور بھنووں کے بال کے علاوہ چہرے اور جسم کے تمام بال صاف کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے لیے  عام حالات میں سر کے بال کاٹنے کی اجازت نہیں ہے، اور   عورت کا سر کے بال کاٹ کر مردوں کی مشابہت اختیار کرنا لعنت کا سبب ہے، البتہ عذر یا مرض کی وجہ سے  سر کے بال کاٹنا ناگزیر ہوجاۓ تو  بقدر ضرورت  سر کے بالوں کو کاٹ سکتی ہے، البتہ جیسے ہی عذر ختم ہوجاۓ تو  یہ اجازت بھی ختم ہوجاۓ گی،اسی طرح بھنویں بنانا دھاگے وغیرہ سے نوچ کر اللہ تبارک وتعالی کی تخلیق  میں تغیر و تبدل کرنے کے سبب ناجائز ہے،لیکن اگر بھنویں بہت زیادہ پھیلی ہوۓ ہو اور بدنما لگتی ہو تو ان کو درست کرکے عام عالات کے موافق کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ عورتوں کے  لیے  چہروں کے بال صاف کرنا جائز ہے، نیز اگر ڈاڑھی اور مونچھوں کے بال عورتوں کے چہرے پر  نکل آئیں ،تو ان کو صاف کرنا مستحب ہے،اسی طرح کلائیوں اور پنڈلیوں کے بال بھی صاف کرنا مستحب ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ عورتوں کے لیے  سر اور بھنووں کے بال کے علاوہ باقی کے تمام بالوں کو صاف کرنا جائز ہے، البتہ بغل اور زیرناف بال ہفتے میں ایک مرتبہ صاف کرنا مستحب ہےاور چالیس دن میں صاف کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت زاد في البزازية وإن بإذن الزوج لأنه لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق، ولذا يحرم على الرجل قطع لحيته، والمعنى المؤثر التشبه بالرجال اهـ"

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،407/6،ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"ولا بأس بأن يأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث ......... وإذا ‌حلقت ‌المرأة ‌شعر ‌رأسها فإن كان لوجع أصابها فلا بأس به وإن حلقت تشبه الرجال فهو مكروه."

(‌‌كتاب الكراهية،فصل في البيع،233/8،رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله والنامصة إلخ) ذكره في الاختيار أيضا وفي المغرب. النمص: نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا ‌فلو ‌كان ‌في ‌وجهها ‌شعر ينفر زوجها عنها بسببه، ففي تحريم إزالته بعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب اهـ، وفي التتارخانية عن المضمرات: ولا بأس بأخذ الحاجبين وشعر وجهه ما لم يشبه المخنث اهـ ومثله في المجتبى تأمل."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،فصل في النظر والمس،373/6،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة وجازفي كل خمسة عشرة وكره تركه وراء الأربعين مجتبى."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،406،407/6،ط:سعید)

فقط والله اعلم

 


فتوی نمبر : 144410101811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں