بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے نیچے بچہ دب کر مرنے میں دیت اور کفارہ کا حکم ہے


سوال

ایک عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا، کچھ عرصہ بعد جبکہ وہ اپنے بچے کے ساتھ سو رہی تھی، اس پر پلٹ گئی، جس کی وجہ سے بچہ نیچے دب کر مرگیا، عورت پہلے سے بیمار اور کمزور تھی اور اس واقعہ کے بعد مزید بیمار اور کمزور ہوگئی ہے، عورت تقریباً 20 سال کی بالکل جوان ہے اور یہ فوت ہونے والا اس کا پہلا بچہ ہے، وہ روزے بھی رکھ سکتی ہے لیکن فی الحال کمزور اور بیمار ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ مقتول بچے کے ورثاء اگر دیت معاف کریں تو ان کے معاف کرنے سے دیت معاف ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اور کفارے کے طور پر دو مہینے مسلسل روزے رکھنے لازم ہیں یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا کر بھی کفارہ ادا ہوجائے گا؟ 

جواب

صورتِ مسولہ میں مذکورہ بچے کا وارث صرف اس کا باپ ہے،اگر باپ دیت معاف کر دیتا ہے،تو دیت معاف ہو جائے گی،البتہ کفارے میں مسلسل ساٹھ روزے رکھنا اس عورت پر لازم ہے، عورت اگر ابھی نہیں رکھ سکتی تو صحت ملنے کا انتظار کرے، صحت یاب ہونے کے بعد دو ماہ مسلسل روزے رکھے، نیز کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سرِ نو رکھنے پڑیں گے، البتہ عورت  کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہو گا، یعنی اگر کسی عورت سے قتل ہو گیااور وہ 60 روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے تو60 روزے رکھنے کے دوران ماہ واری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ ماہ واری سے فراغت کے بعد روزوں کو جاری رکھے گی، قتل کے کفارے میں روزے رکھنا ہی ضروری ہے، اس میں روزے کے بدلے کھانا کھلانے کی اجازت نہیں ہے، جب تک روزوں پر قدرت نہ ہو، توبہ و استغفار کرتی رہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلاَّ خَطَئًا وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَن يَصَّدَّقُواْ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰه وَكَانَ اللّٰه عَلِيمًا حَكِيمًا"

(سورة النساء، آیت:92)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الرابع (ما جرى مجراه) مجرى الخطأ (كنائم انقلب على رجل فقتله)؛ لأنه معذور كالمخطئ، (وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل، إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة.

(قوله: والرابع ما جرى مجراه إلخ) فحكمه حكم الخطأ في الشرع، لكنه دون الخطأ حقيقة؛ فإن النائم ليس من أهل القصد أصلاً، وإنما وجبت الكفارة لترك التحرز عن نومه في موضع يتوهم أن يصير قاتلًا، والكفارة في قتل الخطأ إنما تجب لترك التحرز أيضًا، وحرمان الميراث لمباشرة القتل، وتوهم أن يكون متناعسًالم يكن نائمًا قصدًا منه إلى استعجال الإرث، والذي سقط من سطح فوقع على إنسان فقتله أو كان في يده لبنة أو خشبة فسقطت من يده على إنسان أو كان على دابة فأوطأت إنسانًا فقتله مثل النائم؛ لكونه قتلًا للمعصوم من غير قصد كفاية."

(ج:6، ص:531، کتاب الجنایات، ط:سعید)

وایضاً:

"الدية (في الخطإ أخماس، منها ومن ابن مخاض أو ألف دينار من الذهب أو عشرة آلاف درهم من الورق) وقال الشافعي: اثنا عشر ألفًا، وقالا: منها ومن البقر مائتا بقرة ومن الغنم ألفا شاة ومن الحلل مائتا حلة كل حلة ثوبان: إزار ورداء، هو المختار. (وكفارتهما) أي الخطأ وشبه العمد (عتق قن مؤمن فإن عجز عنه صام شهرين ولاء ولا إطعام فيهما) إذ لم يرد به النص والمقادير توقيفية."

(ج:6، ص:573، 574، کتاب الدیات، ط:سعید)

وایضاً:

"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير كالفطرة لو موسرا وإلا فيستغفر الله، هذا إذا كان الصوم أصلا بنفسه وخوطب بأدائه، حتى لو لزمه الصوم لكفارة يمين أو قتل ثم عجز لم تجز الفدية، لأن الصوم هنا بدل عن غيره.

(ج:2، ص:427، كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144305100858

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں