بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے لیے محرم کے اورشوہر کی اجازت کے بغیر حج یا عمرہ کا سفر کرنا


سوال

1:میری سالی نے میری بیوی کوکہاکہ آپ میرے ساتھ عمرہ پر چلیں اواپنے شوہرکوبھی ساتھ لےلیں ، اورمیری ایک پڑوسن ( ضعیف العمر) ہے وہ بھی ہمارے ساتھ چلے گی ، جب کہ سالی اوراس پڑوسن کاکوئی محرم ساتھ نہیں جارہا، توکیامیں اپنی بیوی ، سالی اورپڑوسن کے ساتھ عمرہ پرجاسکتاہوں ؟

2:کیااس بات کی کوئی حقیقت ہے کہ عورت بغیرشوہرکی اجازت کے بھی عمرہ پرجاسکتی ہے ، بغیرشوہرکے عمرہ پرجاناکیساہے ؟

جواب

1:واضح رہے کہ  عورتوں کے لیے سفرشرعی کی مسافت (48 میل) یا اس سے زیادہ اکیلے یعنی  بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، عمرے کا سفر ہو یا کوئی اور سفر، کسی بھی حالت میں  محرم کے بغیر جانا جائز نہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ دن و رات کا سفر بغیر محرم کے کرے۔"

"حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی مرد کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے اور کوئی عورت سفر نہ کرے، مگر اس حال میں کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو، تو ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ میرا نام فلاں غزوے (جہادی لشکر) میں لکھا گیا ہے، اور میری بیوی حج کے لیے نکل چکی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اب تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔"

لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائل کی سالی اورپڑوسن کے لیے محرم کے بغیر عمرہ پر جانا شرعاً جائز نہیں ،جب تک محرم کا انتظام نہیں  ہوتا اللہ تعالی سے دعا کرتی رہیں اور درود شریف کثرت کے ساتھ پڑھیں ،اوراس طلب وشوق پر اللہ تعالی سے بھرپور اجر کی امید رکھے ۔

حدیث میں ہے :

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:لا يحل لامرأة، تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تسافر ‌مسيرة ‌يوم وليلة ليس معها حرمة".

(بخاری شریف ،ابواب تقصیر الصلاۃ،ج:1،ص:369،دار ابن کثیر )

وفيه أيضاّ:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم، فقام رجل فقال: يا رسول الله، امرأتي ‌خرجت ‌حاجة، واكتتبت في غزوة كذا كذا، قال: ارجع فحج مع امرأتك".

(بخاری شریف ،باب لا یخلون رجل بامراۃ۔۔۔۔۔،ج:5،ص:2005،دارابن کثیر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا  إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع والمحرم الزوج، ومن لا يجوز مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو مصاهرة كذا في الخلاصة ويشترط أن يكون مأمونا عاقلا بالغا حرا كان أو عبدا كافرا كان أو مسلما هكذا في فتاوى قاضي خان والمجوسي إذا كان يعتقد إباحة مناكحتها لا يسافر معها كذا في محيط السرخسي والمراهق كالبالغ وعبد المرأة ليس بمحرم لها كذا في الجوهرة النيرة ولا عبرة للصبي الذي لا يحتلم والمجنون الذي لا يفيق كذا في محيط السرخسي وتجب عليها النفقة والراحلة في مالها للمحرم ليحج بها، وعند وجود المحرم كان عليها أن تحج حجة الإسلام، وإن لم يأذن لها زوجها، وفي النافلة لا تخرج بغير إذن الزوج، وإن لم يكن لها محرم لا يجب عليها أن تتزوج للحج كذا في فتاوى قاضي خان ثم تكلموا أن أمن الطريق وسلامة البدن - على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ووجود المحرم للمرأة شرط لوجوب الحج أم لأدائه، بعضهم جعلوها شرطا للوجوب وبعضهم شرطا للأداء، وهو الصحيح وثمرة الخلاف فيما إذا مات قبل الحج فعلى قول الأولين لا تلزمه الوصية وعلى قول الآخرين تلزمه كذا في النهاية".

(کتاب المناسک ،ج:1،ص:218،دارالفکر)

2:شریعت مطہرہ کی رو سے عورت کے لیے اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر نکلنا جائز نہیں  ہے ۔چنانچہ اگر کوئی عورت شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلےگی تو وہ شوہر کی نافرمانی کی وجہ سے گناہ گار ہو گی، لہذا بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر عمرہ کے لیے جانا جائز نہیں ہے۔ البتہ عمرہ کے ارکان اداکرنے سے  اس کا عمرہ ادا ہوجائےگا ۔

" (ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا۔ ۔ ۔ وعند وجود المحرم كان عليها أن تحج حجة الإسلام، وإن لم يأذن لها زوجها، وفي النافلة لا تخرج بغير إذن الزوج."

(الفتاوى الهندية،کتاب المناسك،الباب الاول،ج:1،ص:218،دارالفکر،بیروت)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله فلا تخرج إلخ) جواب شرط مقدر: أي فإن قبضته فلا تخرج إلخ، وأفاد به تقييد كلام المتن فإن مقتضاه أنها إن قبضته ليس لها الخروج للحاجة وزيارة أهلها بلا إذنه مع أن لها الخروج وإن لم يأذن في المسائل التي ذكرها الشارح كما هو صريح عبارته في شرحه على الملتقى عن الأشباه."

(رد المحتار علی الدرالمختار،کتاب النکاح،باب المهر،ج:4،ص:293،ط:دار الکتب العلمية،بيروت)

الترغیب والترہیب میں ہے:

"وروي عن ابن عباس رضي الله عنهما أن امرأة من خثعم أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله! أخبرني ما حق الزوج على الزوجة؟؛ فإني امرأة أيم فإن استطعت وإلا جلست أيماً! قال: فإن حق الزوج على زوجته إن سألها نفسها وهي على ظهر قتب أن لا تمنعه نفسها، ومن حق الزوج على الزوجة أن لا تصوم تطوعاً إلا بإذنه فإن فعلت جاعت وعطشت ولا يقبل منها، ولا تخرج من بيتها إلا بإذنه فإن فعلت لعنتها ملائكة السماء وملائكة الرحمة وملائكة العذاب حتى ترجع، قالت: لا جرم ولا أتزوج أبداً". رواه الطبراني".

(الترغیب والترهیب للمنذری،ج:3،ص:37)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں