بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا یو ٹیوب پر آواز ریکارڈ کروانا


سوال

اگر کوئی لڑکی یا عورت یوٹیوب پر کھانے پکانے کی ویڈیوز بنائے اور اس میں اس کی اور اس کے گھر والوں کی آواز ہو ، حال آں کہ اسے پیسے کی کوئی پریشانی نہ ہو ، وہ صرف شوقیہ یہ کام کر رہی ہو ۔ یہ کام صحیح ہے کہ  نامحرم اس کی آواز سنیں تو صحیح ہے؟  یہ کام جائز ہے؟

جواب

واضح  رہے  کہ عورت کی آواز اگرچہ راجح قول کے مطابق ستر نہیں،لیکن عوارض کی وجہ سے بعض جائز اُمور کا ناجائز ہوجانا فقہ میں معروف و مشہور ہے،  اِس لیے اگر شرعی ضرورت نہ ہو تو عورت کی آواز کابھی غیر محرم سے پردہ ہے؛اسی لیے عورت کے لیے بوقتِ ضرورت نامحرم سے بات کرنے میں یہ حکم ہے کہ وہ نرم لہجے میں بات نہ کرے ، بلکہ کڑک آواز میں اپنی ضرورت کی بات کرے، تاکہ جن مردوں کے دل میں مرض ہے  وہ کسی بھی قسم کی طمع  نہ  رکھ سکیں، ایسا انداز اختیار کرنا جس سے عورت کی آواز سن کر اجنبی کی توجہ اس طرف ہو، درست نہیں ہے؛لہذا بصورتِ  مسئولہ موجودہ فتنے کے زمانے میں  عورت کا یو ٹیوب پر اپنی آواز ریکارڈ کروانا خواہ بلا تصویر ہی ہو،  شرعًا درست نہیں،عورت کی حیا  کا تقاضابھی یہی ہے۔

باقی یوٹیوب پر چینل بناکر اس کے ذریعہ آمدن حاصل کرنے کا حکم درج ذیل لنک میں ملاحظہ کیجیے:

یوٹیوب کی کمائی

عورت کا یوٹیوب چینل بناکر آڈیو پروگرام کرنے کا حکم

التفسير المظهرى ـ (1 / 1311):

"(مسألة) قال فى النوازل: نغمة المرأة عورة، ولهذا قال عليه السلام: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء، قال ابن الهمام: وعلى هذا لو قيل: إن المرأة إذا جهرت بالقراءة فى الصلاة فسدت كان متجهًا".

التفسير المظهرى ـ (1 / 2713):

"قال البغوي كانت المرأة إذا مشت ضربت برجلها لتسمع صوت خلخالها فنهيت عن ذلك؛ لأنه يورث في الرجال ميلاً إليها. قال البيضاوي: وهو أبلغ من النهى عن إبداء الزينة وأدل على المنع من رفع الصوت لها، ولذا صرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليها أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إليّ؛ لأن نغمتها عورة، ولذا قال عليه السّلام: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء. متفق عليه من حديث سهل بن سعد. فلايحسن أن يسمعها الرجل، قال ابن همام: وعلى هذا لو قيل: إذا جهرت المرأة بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجهًا".

روح المعانى ـ  (9 / 340):

"والمذكور في معتبرات كتب الشافعية وإليه أميل أن صوتهن ليس بعورة فلايحرم سماعه إلا إن خشي منه فتنة، وكذا إن التذّ به كما بحثه الزركشي. وأما عند الحنفية فقال الإمام ابن الهمام: صرح في النوازل أن نغمة المرأة عورة، ولذاقال النبي صلّى اللّه عليه وسلّم: «والتكبير للرجال والتصفيق للنساء»؛ فلايحسن أن يسمعها الرجل اهـ".

مشكاة المصابيح مع شرحه مرعاة المفاتيح - (8 / 1000):

"فإن المرأة لاتجهر بها بل تقتصر على إسماع نفسها. وقال ابن رشد: أجمع أهل العلم على أن تلبية المرأة فيما حكاه أبو عمر هو أن تسمع نفسها بالقول. وفي الدر المختار: ولاتلبي جهرًا بل تسمع نفسها دفعًا للفتنة".

رد المحتار - (3 / 255):

"(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله: على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر: وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: "التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء"، فلايحسن أن يسمعها الرجل. ا هـ. وفي الكافي: ولاتلبي جهرًا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (1 / 285):

"وصرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة، وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى، ولهذا قال: التسبيح للرجال والتصفيق للنساء؛ فلايجوز أن يسمعها الرجل.  ومشى عليه المصنف في الكافي فقال: ولاتلبي جهرًا؛ لأنّ صوتها عورة".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200894

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں