بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا سرکاری ملازمت کرنا


سوال

 میں سائیکولوجی میں ماسٹر کر رہی ہوں جو اس سال انشاء اللہ مکمل ہو جائیگامیں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کرنا چاہتی ہوں نیوی ،آرمی یا پھر ایئیرفورس میں  تو اس سلسلے میں یہ معلوم کرنا ہے کہ دین کی رو سے میرے لیے ان اداروں میں  نوکری کرنا جائزہے ؟ 

جواب

واضح رہے کہ  عورت کو شریعت  میں گھر میں رہنے کا پابند بنایا گیا ہے  اور شدید ضرورت کے بغیر عورت کاگھر سے نکلنا جائز  نہیں ہے،شادی سے پہلے کاخرچہ باپ پر لازم ہے اور شادی کے بعد کاخرچہ شوہر پر  لازم ہے ۔لہٰذا صورت مسؤلہ میں سائلہ کی مذکورہ تعلیم مکمل ہوجانے کے بعدشادی سے پہلے اگر والدین  سائلہ کے نان نفقہ کا انتطام کررہے ہوں تو سائلہ کے لیے اس نوکری کا کرنا جائز نہیں اور شادی کے بعد کا خرچہ شوہر پر لازم ہوگا۔

قال اللہ تعالٰی:

" وَعَلَى ٱلْمَوْلُودِ لَهُۥ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ ."(سورۃ البقرۃ :233)

"اور  جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ ہے ان کا کھانا او  ر کپڑا  قاعدہ کے موافق"(بیان القرآن)

 

و قال تعالٰی:

" وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجَٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ ۖ ."(سورة الاحزاب :33)

"تم اپنے گھر میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو"۔(آسان بیان القرآن)

 

روح المعانی ميں ہے :

"والمراد علی جمع القراءات أمرھن رضی اللہ تعالی عنھن بملازمۃ البیوت وھو أمر مطلوب من سائرالنساء، وأخرج الترمذی والبزار عن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : إن المرأۃ عورۃ فإذا خرجت من بیتھا استشرفھا الشیطان و أقرب ما تکون من رحمۃ ربّھا و ھی فی قعر بیتھا ."

(ج: 11،ص: 253 ،ط: دارالإحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے :

"ولأن النساء أمرن بالقرار فی البیوت فکان مبنی حالھن علی الستر و الیہ أشار النبی صلی اللہ علیہ وسلم حیث قال : کیف یفلح قوم تملکھم إمراۃ."

(باب الإمامة، مطلب في شروط الإمامة الكبرى ،ج: 1 ،ص: 548،ط:سعید )

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"واما الأناث فلیس للأب أن یؤاجرھن فی عمل أو خدمۃ  و نفقۃ الأناث واجبۃ مطلقا علی الآباء مالم یتزوّجن اذا لم یکن لھن مال، کذا فی الخلاصۃ ."

(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات ،الفصل الرابع في نفقة الأولاد الصغار ،ج: ا،ص: 563 و 562، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں