بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا پردے کے ساتھ پبلک سوئمنگ پول میں نہانے کا حکم


سوال

کیا عورت مکمل پردے کے ساتھ حتی کے بالوں کو بھی چھپاکر پبلک سؤئمنگ پول میں نہا سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ  نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا، اور زمانۂ جاہلیت کے دستور کے موافق  بے پردگی کے ساتھ اور بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے سے منع کیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت چھپانے کی چیز ہے،  جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تانک جھانک میں لگ جاتا ہے‘‘،  شرعی وطبعی ضرورتوں کے لیے (جب کہ ضرورت ایسی ہو کہ بغیر باہر نکلے مصیبت ٹلنے یا کام پورا ہونے کی کوئی سبیل نہ ہو) عورت کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہے، لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ عورت مکمل پردہ میں ہو، اور وہ بھی ایسا ہو جو پورے بدن کو چھپاتا ہو، دیدہ زیب ونقش ونگار والا، زرق برق، نظروں کو خِیرہ کردینے والا نہ ہو۔ نیز جس طرح مردوں کو حکم ہے کہ وہ عورتوں اور غیر محرم پر نظر نہ ڈالیں، اسی طرح عورتوں کو بھی حکم ہے کہ وہ غیر محرم مردوں پر نظر نہ ڈالیں۔

مذکورہ تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے  پبلک سؤئمنگ پول میں اگر پردے کے ساتھ بھی نہایا جائے تو اس میں  شرعا کئی مفاسد پائے جاتے ہیں، اول یہ ہے کہ اس میں عورت کا بلاضرورت گھر سے نکلنا ہے جو کہ جائز نہیں۔ دوم یہ ہے  پبلک سؤئمنگ پول میں نہاتے وقت عموما   عورت کامردوں کو دیکھنا لازم آئے گا جو  شرعاً ممنوع ہے۔ سوم گیلا پن سے کپڑے بدن کے ساتھ چپک جاتے ہیں اور اعضاء کو ظاہر کردیتے ہیں، جب کہ عورتوں کو مکمل بدن چھپانے کا حکم دیا ہے۔ چہارم پبلک سؤئمنگ پول میں نہانا فطرتاً نسوانیت کے خلاف ہے۔ لہذا عورتوں کا پبلک سؤئمنگ پول میں پردے کے ساتھ نہانا جائز نہیں۔

قرآن مجید میں ہے:

"وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ."

(سورۃ الاحزاب، آیت 33)

بیان القرآن میں ہے:

"تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو (مراد اس سے یہ ہے کہ محض کپڑا اوڑھ لپیٹ کر پردہ کرلینے پر کفایت مت کرو بلکہ پردہ اس طریقے سے کرو کہ بدن مع لباس نظر نہ آوے جیسا آج کل شرفاء میں پردہ کا طریقہ متعارف ہے کہ عورتیں گھروں ہی سے نہیں نکلتیں، البتہ مواقع ضرورت دوسری دلیل سے مستثنیٰ ہیں)"

(سورۃ الاحزاب، ج:3، ص:174، ط:رحمانیہ)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: المرأة ‌عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان."

(ابواب الرضاع، ج:3، ص:468، ط:مطبعة مصطفي البابي)

فتاوی بزازیہ میں ہے:

"ولا يأذن بالخروج الي المجلس الذي يجتمع فيه الرجال والنساء وفيه المنكرات."

(فتاوي بزازيه علي هامش الهندية، كتاب النكاح، الثامن عشر في الحظر والاباحة، ج:4، ص:157، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101880

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں