بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا پہلے شوہر کی موجودگی میں دوسرا نکاح کرنا


سوال

 اگر  بیوی اپنے پہلے شوہر کی اجازت سے دوسرا نکاح  اس شوہر کے نکاح میں ہوتے ہوئے  کر لے ،  مطلب یہ ہے کہ کیا ایک عورت ایک ساتھ دو نکاح کر لے تو ا س کا کیا حکم ہے  ؟

جواب

شوہر کے موجود ہوتے ہوئے بغیر جدائی (طلاق یا خلع) کےعورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا حرام اور ناجائز اور بد ترین گناہ ہے، لہذا اگر کسی عورت نے شوہر کی موجودگی میں اس سے طلاق یا خلع لیے بغیر دوسرا نکاح کیا  تو یہ نکاح شرعاً ناجائز اورباطل ہے،اور اگر اس میں پہلے شوہر کی رضامندی شامل ہوتو وہ بھی گناہ گار ہوگا،  یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا ، عورت بدستور اپنے پہلے شوہر کے نکاح میں ر ہےگی  اور پہلے شوہر سے عورت کا نکاح قائم رہےگا۔

ایسی عورت اور جس دوسرے مرد کے ساتھ عورت نے تعلق قائم کیا ہے، دونوں سخت گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے ، فوری طور پر دونوں میں علیحدگی لازم ہوگی  اور  دونوں کو اپنے اس فعل پر سچے دل سے توبہ واستغفار کرنا لازم ہوگا،  البتہ پہلا شوہر اگر اس عورت کو بیوی کی حیثیت سے رکھنا چاہتا ہو  تو اسے چاہیے کہ اس فعل بد کے ارتکاب کے بعد جب تک عورت کو حیض نہ آجائے اور وہ حیض سے پاک نہ ہوجائے اس وقت تک ازدواجی تعلق قائم کرنے سے احتراز کرے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وكذا لا عدة لو تزوج امرأة الغير ) ووطئها ( عالما بذلك ) وفي نسخ المتن ( ودخل بها ) ولا بد منه وبه يفتى ولهذا يحد مع العلم بالحرمة لأنه زنا والمزني بها لا تحرم على زوجها  وفي شرح الوهبانية لو زنت المرأة لا يقربها زوجها حتى تحيض لاحتمال علوقها من الزنا فلا يسقي ماؤه زرع غيره فليحفظ لغرابته."

(‌‌کتاب الطلاق، باب العدة، مطلب في وطء المعتدة بشبهة، ج: 3، ص: 527، ط: سعید)

وفیہ ایضاً: 

"أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلًا."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب المهر، مطلب في النكاح الفاسد، ج: 3، ص: 132، ط: سعید)

المبسوط للسرخسي  میں ہے :

"ونكاح المنكوحة لا يحله أحد من أهل الأديان ."

(كتاب السير، باب نكاح أهل الحرب ودخول التجار إليهم بأمان، ج: 10، ص: 96، ط: مطبعة السعادة - مصر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے 

"( فصل ) : ومنها أن لاتكون منكوحة الغير ، لقوله تعالى : { والمحصنات من النساء } معطوفًا على قوله عز وجل : { حرمت عليكم أمهاتكم } إلى قوله : { والمحصنات من النساء } وهن ذوات الأزواج ، وسواء كان زوجها مسلمًا أو كافرًا."

(كتاب النكاح، فصل أن لا تكون منكوحة الغير، ج: 2، ص: 268، ط: دارالفکر،بیروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"( القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير ) .لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة ، كذا في السراج الوهاج ."

(كتاب النكاح، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير، ج:1، ص:280، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100845

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں