بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا پہلے نکاح کے برقرار ہوتے ہوئے دوسرا نکاح کرنا


سوال

(بیوی کا فرضی نام  ہندہ، شوہر کا فرضی نام زید اور بیوی کے والد کا فرضی نام  بکر ہے)

زید کی والدہ اور بہنیں  ہندہ پر بہت ظلم کرتی  تھیں، اسی طرح تقریبًا دوسال گزر گئے اور زید کو اللہ نے  ہندہ سے ایک بیٹی بھی دی، اس کے بعد زید   ہندہ کو  بکر کے گھر  لایا، بغیر کچھ کہنے کے  ہندہ کو یہاں چھوڑ کر خود چلا گیا، اب تقریباً دوسال مکمل ہوئے کہ نہ زید نے رابطہ کیا ہے اور نہ طلاق نامہ بھیجا ہے اور  ہندہ اپنے والد کے پاس ہے،  اب سننے میں آرہا ہے کہ زید نے ہندہ کا وہ گھریلو سامان جو  بکر نے  ہندہ کو رخصتی کے وقت دیا ہے وہ سب کا سب فروخت کردیا ہے اور زید کا گھر پہلے جس شہر میں تھا اب وہ وہاں سے کسی دوسرے شہر گیا ہے، اسی وجہ سے ہندہ کا والد یعنی  بکر غصہ ہے اور کہتا ہے کہ میں  ہندہ دوبارہ زید کو کسی بھی صورت میں حوالہ نہیں کروں گا اور ہندہ بھی یہ کہتی ہے کہ میں اب زید کے گھر نہیں جاؤں گی اور نہ میں اپنے آپ کو زید کے نکاح میں رکھنا  چاہتی ہوں تو  اب کیا  ہندہ دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟  اگر نہیں تو  ہندہ کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں جب تک  زید  نے اپنی بیوی ہندہ کو  طلاق نہیں دی  اور نہ ہی  ہندہ نے زید  کے  ساتھ خلع کا معاملہ کیا ہو اُس وقت تک دونوں کانکاح برقرار ہے اور  ہندہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسرا نکاح کر لے،  اگر ہندہ دوسرا نکاح کرنا چاہتی  ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ زید سے طلاق لے لے یا اس کے ساتھ خلع  کا معاملہ کر لے، اِس کے بعد  ہندہ کے لیے دوسرا نکاح کرنا جائز  ہو گا۔

واضح رہے کہ خلع   دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے،  اس لیے اس کی صحت کے لیے بھی  ضروری ہے کہ طرفین سے رضامندی پائی جائے،  لہذا اگر  ہندہ اپنے شوہر سے خلع لینا چاہتی ہے تو اس کے لیے زید سےزبانی یا تحریری رضامندی  لینا ضروری ہوگا،  زید کی رضامندی کے بغیر یہ خلع معتبر نہیں ہوگی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".

(كتاب الطلاق، باب الخلع 3/441، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144211201048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں