ایسا مرد جو کماتا ہو اور بیوی کا خرچ اٹھا سکتا ہو اس کے ہوتے ہوئے عورت کا جاب/نوکری کرنا کیسا ہے؟ (چاہے گھر پر رہ کر آفس کا کام کرے یا آفس جاکر کام کرے) برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں عورت کو پردہ میں رہنے کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور بلاضرورتِ شرعیہ اس کے گھر سے نکلنے کو سخت نا پسند کیا گیا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے معاملہ میں بھی یہ پسند فرمایا کہ عورتیں اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھیں اور اسی کی ترغیب دی ہے، چنانچہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں آپ کے پیچھے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن تمہارا اپنے گھر میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے، نیز کمانے کی غرض سے بھی عورت کا نکلنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اور اُس کا نفقہ اس کے والد یا شوہر پر لازم کیا گیا؛ تا کہ گھر سے باہر نکلنے کی حاجت پیش نہ آئے، شادی سے پہلے اگر اُس کا اپنا مال نہ ہو تو اس کا نفقہ اس کے باپ پر لازم ہے اور شادی کے بعد اس کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم کیا ہے، لہذا بلاضرورتِ شدیدہ کمانے کے لیے بھی عورت کا اپنے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے دوسروں کی نظروں میں اچھا کر کے دکھاتا ہے۔
البتہ اگر کسی خاتون کی شدید مجبوری ہو اور کوئی دوسرا کمانے والا نہ ہوتو ایسی صورت میں عورت کے لیےگھر سے نکلنے کی گنجائش ہو گی، لیکن اس میں بھی یہ ضروری ہے کہ عورت مکمل پردے کے ساتھ گھر سے نکلے، کسی نا محرم سے بات چیت نہ ہو، ایسی ملازمت اختیار نہ کرے جس میں کسی غیر محرم کے ساتھ تنہائی حاصل ہوتی ہو۔
لہذا سوالِ مذکور میں جب عورت کا خرچ شوہر اٹھا سکتا ہے اور اس کے لیے شدید مجبوری بھی نہیں ہے تو اس کے لیے بغرضِ ملازمت اپنے گھر سے نکلنا جائز نہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
" وَعَلَى ٱلْمَوْلُودِ لَهُۥ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ ."(سورۃ البقرۃ :233)
’’اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ ہے ان کا کھانا او ر کپڑا قاعدہ کے موافق۔‘‘(بیان القرآن)
اسی طرح ایک اور آیت میں ہے:
" وَقَرْنَ فِى بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ ٱلْجَٰهِلِيَّةِ ٱلْأُولَىٰ ۖ ."(سورة الاحزاب :33)
’’تم اپنے گھر میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو۔‘‘(آسان بیان القرآن)
روح المعانی ميں ہے :
"والمراد علی جمع القراءات أمرهن رضی اللہ تعالی عنھن بملازمة البیوت وهو أمر مطلوب من سائرالنساء، وأخرج الترمذی والبزار عن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنه عن النبیصلی اللہ علیه وسلم قال : إن المرأۃ عورۃ فإذا خرجت من بیتھا استشرفھا الشیطان و أقرب ما تکون من رحمة ربّھا وهي في قعر بیتھا."
(ج: 11،ص: 253 ،ط: دارالإحياء التراث العربي)
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"(استشرفها الشيطان) أي زيّنها في نظر الرجال۔ وقيل: أي نظر إليها ليغويها ويغوي بها."
(باب النظر، جلد 5 ص:2054، ط: دار الفکر بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"ولأن النساء أمرن بالقرار فی البیوت فکان مبنی حالھن علی الستر و إلیه أشار النبي صلی اللہ علیه وسلم حیث قال : کیف یفلح قوم تملكهم امرأۃ."
(باب الإمامة، مطلب في شروط الإمامة الكبرى ،ج: 1 ،ص: 548،ط:سعید )
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"وأما الإناث فلیس للأب أن یؤاجرھن في عمل أو خدمة و نفقة الإناث واجبة مطلقا علی الآباء مالم یتزوّجن إذا لم یکن لھن مال، کذا فی الخلاصة."
(كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات ،الفصل الرابع في نفقة الأولاد الصغار ،ج: ا،ص: 563 و 562، ط: رشيدية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144312100134
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن