بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا مختلف دھاتوں کے زیورات پہننے کا حکم/ لیکیوریا سے متعلق تفصیل/ چہرے کے بال صاف کرنا


سوال

1- ـ کیا عورت کے لیے لوہے یا سٹیل کا استعمال اسلام میں ممنوع یا حرام ہے ؟

3- ـ لیکوریا کے مسئلے کا کیا بیان ہے ؟

3- ـ کیا ما تھے سے بال اُتارنے سے بناوٹ میں تبدیلی آتی ہے؟ یہ ممنوع ہے ؟

جواب

1. عورت ہردھات کا زیور استعمال کرسکتی ہے،  لوہے، تانبے، پیتل ، پلاسٹک اور کانچ کا بنا ہوا زیور بھی  عورت کے لیے استعمال کرنا درست ہے، البتہ  عورت کے لیے انگوٹھی صرف سونے اور  چاندی  کی  استعمال کرنا جائز ہے ، جمہور کے نزدیک اِن دونوں دھاتوں کے  علاوہ  کسی دھات کی انگوٹھی پہننا  عورت کے لیے   جائز نہیں۔

2.  لیکوریا  ایک  رطوبت ہے جو عورت کی شرمگاہ سے نکلتی ہے،  لیکوریا کی رطوبت ناپاک ہے، اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر کپڑے پر لگ جائے  تو کپڑے کے اس حصہ کو دھونا ضروری ہوگا، اگر اس کی مقدار ایک درہم  یا اس سے زیادہ ہے اور اس کو  دھو کر پاک نہیں کیا تو  نماز درست نہیں ہوگی، اور اگر اس کی مقدار ایک درہم سے کم ہے تو نماز ہوجائے گی،  لیکن قصدًا  دھوئے  بغیر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

تاہم  اگر یہ بیماری کسی کو اتنی زیادہ ہوکہ کسی  ایک نماز کے مکمل وقت میں اسے اتنا وقفہ بھی نہ ملے جس میں وہ وضو کرکے پاکی کی حالت میں  اس وقت کی فرض نماز ادا کرسکے تو وہ معذور کے حکم میں ہوگی،اور معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر نماز کا وقت داخل ہونے  کے بعد ایک مرتبہ وضو کرلے اورپھر اس میں جتنی چاہے نماز پڑھے ، اگر وضو کے بعد  لیکوریا  کی رطوبت (یعنی جس بیماری کی وجہ سے وہ معذور کے حکم میں ہے ) کے  علاوہ کوئی اور وضو توڑنے والی چیز  صادر ہو تو دوبارہ وضو کرے،  ورنہ دوبارہ  وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ جیسے ہی نماز کا وقت نکل جائے گا اس کا وضو بھی ختم ہوجائے گا۔

باقی  کپڑا پاک کرنے کے حکم میں یہ تفصیل  ہے کہ اگر اتنا وقفہ ملتاہو کہ کپڑادھوکرنماز پڑھے تو نماز کے درمیان میں وہ دوبارہ ناپاک نہ ہوتا ہو تب تو اس کے ذمے دھونا واجب ہوگا ، اوراگر یہ حالت ہو کہ کپڑا دھو کر نماز پڑھنے کے درمیان وہ پھرناپاک ہوجاتا ہو تو دھوناواجب نہیں ہوگا۔

3. عورتوں کے لیے بطورِ فیشن باریک بھنویں بنانا جائز نہیں ہے، اس کے علاوہ چہرے کے زائد بال ہٹانا جائز ہے، بشرطیکہ  عورت خود ہٹائے یا کسی عورت  سے  ہٹوائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 359):

"وفي الجوهرة والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305):

’’(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته‘‘.

ولمافي الهندیة(1/40,41):

"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار".

حاشية رد المحتار على الدر المختار (6/ 373):

"( والنامصة إلخ ) ذكره في الاختيار أيضاً، وفي المغرب: النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بعد؛ لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه؛ لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء.  وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200387

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں