بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا کمزوری اور پہلے بچے کے دودھ ختم ہونے کے اندیشہ سے حمل ساقط کرانا


سوال

میری 3 مہینے 22 دن کی بچی ہے ،جو نارمل ڈیلیوری سے ہی ہوئی ہے ،لیکِن پورے 9مہینے مجھے الٹیاں ہوتی رہی ہیں، لیور انزائم بہت زیادہ بڑھ گیا تھا ،پورے 9مہینے میں بالکل بے جان سی جی رہی تھی ،پیدائش کے وقت چھوٹا آپریشن ہوا ،ڈاکٹر نے ٹانکا غلط طریقے سے لگایا،جس کی وجہ سے مجھے ابھی تک تکلیف ہے،دودھ کا مسئلہ یہ ہے کہ اتنا دودھ نہیں ہو پاتا کہ بچی صرف میرے  دودھ پر رہ سکے ،کمزوری بہت زیادہ ہے، ایسے میں مجھے 15 دن کا دوسرا حمل ٹھہر گیا ہے ،صحت کے ساتھ بچی کو دودھ پلانے کا بھی مسلہ ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ ہم باہر رہتے ہیں ،صرف میرے شوہر ،میں اور میری بیٹی ،ساتھ میں پڑھائی بھی جاری ہے ،کُچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے ،کیا میں ابورٹ کروا سکتی ہوں ؟

جواب

اگرواقعۃ  حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی مضرت(نقصان) کا اندیشہ ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے، جس  سےپہلے بچے کو نقصان ہو  اور بچے کے والد کی اتنی گنجائش نہ ہو کہ وہ اجرت پر دودھ پلانے والی عورت مقرر کرسکے یا بچہ کےلئے ڈبہ کے دودھ کا انتظام کرسکے    اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان دیندار  ڈاکٹر اس بات کی تصدیق کرے کہ عورت کا حمل برقرار رہنے کی صورت میں حاملہ کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے یا شدید ضرر لاحق ہوسکتا ہے ،تو ایسے عذر کی صورت میں حمل میں جان پڑنے سے پہلے پہلے اسے ختم کرنے کی  گنجائش ہے  اور فقہاء کرام نے اس کی مدت چارہ ماہ (ایک سو بیس دن ) بیان فرمائی ہے ،اگر مذکورہ بالا اعذار میں سے کوئی عذر نہ ہو تو حمل میں جان پڑنے سے پہلے بھی حمل کو ختم کرنا شرعا جائز نہیں ہوگا ۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں اوپر بیان کردہ اعذار میں سے اگر واقعی کوئی عذر پایا جائے تو سائلہ  کے لیے بیان کردہ شرائط کے تحت حمل کی مدت کے چار ماہ سے پہلے پہلے حمل کو ختم کر نا جائز ہوگا ۔

فتاوی عالمگیری  میں ہے؛

" امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفةً أو مضغةً أو علقةً لم يخلق له عضو، وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوماً: أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان".      

     (کتاب الکراہیۃ، الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات،5 / 356،  ط:رشیدیہ)

    فتاوی شامی میں ہے:

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح، وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولاأقول بالحل إذ المحرم لوكسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح".

 (3 / 176، مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، ط: سعید)

امداد الفتاوی میں ہے :

ــ’’جب تک روح نہ آوے اسقاط حکم قتل نفس میں نہیں ،لیکن بلاضرورت مکروہ ہے اور بعذر جائز اور بعد نفخ روح  حرام و کبیرہ و قتل نفس زکیہ ۔ــ‘‘

(ج:4،ص:203 ،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101351

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں