بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حائضہ عورت کے دورانِ سفر پاک ہوجانے کی صورت میں قصراوراتمام کا حکم


سوال

 عورت اگر حالت ِحیض میں اپنے مقام سے ایسے مقام کے لیے سفر کرے جو مسافت ِسفر پر واقع ہو اور راستے میں ایسی منزل پر پاک ہوجائےجو  مسافت سفر پر نہیں ہے،توشامی اور بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ وہ پوری نماز پڑھے گی،وجہ یہ بیان فرمائی ہے "لکن منعها من الصلاة ما ليس بصنعها فلغت نيتها من الأول"، اس پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ حالتِ حیض میں سفر کی وجہ سے وہ  سفر کی نیت کی اہل کیوں نہ رہی، جب کہ نیتِ سفر کا تعلق صرف نماز سے نہیں ،بلکہ دوسرے مسائل بھی اس سے متعلق ہیں،مثلاً: ایام اضحیہ میں اگر یہ عورت مذکورہ حالت میں سفر کرےتواس پرقربانی واجب نہ ہوگی، تو قربانی کے حق میں سفر کا اعتبار ہے، جب کہ شریعت میں ایسی کوئی مثال ہماری نظر سے نہیں گزری کہ نیت سفر بعض احکام ِسفر کے حق میں معتبر ہو اور بعض کے حق میں نہ ہو، جب کہ دیگر مسائل و احکام جو نیت سے متعلق ہیں ان میں اس کی نیت کا اعتبار ہونا بدیہی ہے اور اگر بغور دیکھا جائے تو حیض مسقطِ نماز توہے ،لیکن مسقط ِاہلیت نہیں ہے، بلکہ بدستور وہ دیگر احکام شرع کی پابندہے، کیوں کہ وہ مسلمہ عاقلہ اور بالغہ ہے اس کی نیت کو محض حیض کی وجہ سے غیر معتبر قرار دینا محل نظر ہے ، نیز المحيط البرهانی میں ایک صریح جزئیہ ہے : "وفي متفرقات الإمام الفقیه أبو جعفر: و أما الحائض إذا طهرت في بعض الطريق قصرت الصلاة لأنها مخاطبة".  ( المحيط البرهاني 408/2 )

ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے شرنبلالی کا جواب جس كتاب"نهج النجاة"سے نقل فرمایاہے وہ ایک غیر معروف اور مفقود کتاب ہے، بلکہ اس کے مصنف کو"هدية العارفین" اور"إيضاح المکنون" نے شافعی کہاہے، اگر چہ بعض نے حنفی بھی کہا ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ایک جزیہ " اتمام والا " قواعد کے خلاف ، نقل کے اعتبار سے کمزور اور قیاس و درایت سے متصادم ہے،جب کہ دوسرا جزئیہ "قصروالا " قواعد مذہب کے مطابق ہےاور قائلین اس کے شیخ الاسلام امام فقیہ ابو جعفر اور علامہ شرنبلالی ہیں تو کیا اس جزئیہ یعنی اتمام والے کو ترجیح دے کر اس پر عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟ امید ہے کہ آپ  جواب سے سرفراز فرمائیں گے۔

جواب

واضح رہے کہ جو عورت حالت ِحیض میں اپنے مقام سے ایسے مقام کے لیے سفر کرے جو مسافت ِسفر یعنی سوا ستتر کلومیٹر پر واقع ہو اور راستے میں ایسی جگہ حیض سے پاک ہو جائے کہ اس جگہ سے آگے کی مسافت،مسافتِ سفریعنی سوا ستتر کلومیٹر سے کم ہو تو ایسی صورت میں  یہ عورت اتمام یعنی پوری نماز پڑھے گی اور یہی قول قیاس کے موافق، راجح،اورمفتی ٰ بہ ہے،کیوں کہ مسافت ِ سفر طے کرنے کا قصد و ارادہ احکام  میں تخفیف پیدا کرنے کے سلسلے میں مؤثر عامل ہے ،اس بناء پر اس قصد کے صحیح ہونے کے لیے  یہ دیکھا جاۓ گا  کہ قصد کرنے والا بوقت ِ قصد اس حکم کا جس کی وجہ سے سفر میں تخفیف پیدا ہوتی ہے ،مکلف بھی ہے یا نہیں ؟ اگر وہ اس حکم کا مکلف نہ ہو تو ظاہر ہے کہ اس کا قصد لغو ہوگا،کیوں کہ جب محل ہی نہیں ہوگا تو عامل کیا اثر کرے گا؟۔

یہی معاملہ  حیض کے باب میں ہے،کہ حیض کی وجہ سےعدمِ خطاب کے باعث  بعض احکام جیسےحج و عمرہ کے احرام کی نیت اور  قربانی وغیرہ میں اہلیت باقی رہتی ہے اور بعض احکام جیسے نماز ،روزہ میں  اہلیت باقی نہیں رہتی،چنانچہ جن احکام میں اہلیت باقی نہیں رہتی تو ان احکام میں نیتِ سفر بھی معتبر نہیں  اور جن احکام میں اہلیت باقی رہتی ہے تو ان احکام میں نیت ِسفر بھی معتبر ہے،لہٰذا حیض صرف مسقطِ نماز نہیں ہے ،بلکہ مسقط ِ نماز کے ساتھ ساتھ نماز اور روزے کے حق میں مسقط ِاہلیت بھی ہے اور یہی بات قواعد ِ مذہب کے مطابق بھی ہے،چناں چہ بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو حاضت المرأة ونفست بعد طلوع الفجر فسد صومها لأن ‌الحيض، ‌والنفاس ‌منافيان للصوم لمنافاتهما أهلية الصوم شرعا بخلاف القياس بإجماع الصحابة رضي الله عنهم."

(كتاب الصوم، ج:2، ص:94، ط:دارالكتب العلمية)

حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

"طهرت الحائض و بقي لمقصدها يومان تتم في الصحيح.

(قوله: في الصحيح) كأنه لسقوط الصلاة عنها  فيما مضي لم يعتبر حكم السفر فيه، فلما تأهلت للأداء اعتبر من وقته."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:593،594، ط:دارالكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"وفائدة إضافته إلى الجزء الأخير اعتبار حال المكلف فيه فلو ‌بلغ ‌صبي ‌أو ‌أسلم ‌كافر وأفاق مجنون أو طهرت الحائض أو النفساء في آخر الوقت بعد مضي الأكثر تجب عليهم الصلاة، ولو كان الصبي قد صلاها في أوله وبعكسه لو جن أو حاضت أو نفست فيه لم يجب لفقد الأهلية عند وجود السبب."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:149، ط:دار الكتاب الإسلامي)

جب حیض مسقط ِاہلیت ہے تو ابتدائے سفر میں حیض کی وجہ سے عورت نماز کی اہل نہ تھی؛لہذا نماز کی ادائیگی کا حکم" خواہ سفرانہ ہو، خواہ پوری نماز ہو" متوجہ نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے نماز اور روزے کے حق میں نیت ِسفر بھی معتبر نہیں ہوتی، جیسے بچے کی نیت ِسفر معتبر نہیں، البتہ جب وہ عورت پاک ہو گئی اور نماز کی اہل ہو گئی تو اب یہیں سے اس کی نیت ِسفر معتبر ہوگی، چناں چہ اگر وہ مقام مسافت ِ سفریعنی سوا  ستترکلومیٹر سے کم ہے تو عورت اتمام کرے گی ورنہ قصر کرے گی ۔

نیز علامہ شامی نے "نھج النجاة  إلي مسائل المقناة"سے صرف مسلم اور حائض میں فرق نقل کیا ہے،باقی مذکورہ جزیہ مذہب کی کتب ِ معتبرہ نے بھی ذکر کیا ہے۔

حلبی کبیر میں ہے:

"والحائض  إذا طهرت وقد بقي بينها و بين مقصدها أقل من ثلثة أيام تتم الصلاة وهو الصحيح  ذكره في الظهيرية."

(فصل المسافر، ص:542، ط:سهيل أكيڈمي)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي الظهيرية: الحائض إذا طهرت من حيضها و بينها و بين  المقصد أقل من مسيرة ثلثة أيام تصلي أربعا ،هو الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب المسافر، الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر، ج:2، ص:505، ط:إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌طهرت ‌الحائض وبقي لمقصدها يومان تتم في الصحيح كصبي بلغ بخلاف كافر أسلم.

(قوله تتم في الصحيح) كذا في الظهيرية. قال ط وكأنه لسقوط الصلاة عنها فيما مضى لم يعتبر حكم السفر فيه فلما تأهلت للأداء اعتبر من وقته.

(قوله كصبي بلغ) أي في أثناء الطريق وقد بقي لمقصده أقل من ثلاثة أيام فإنه يتم ولا يعتبر ما مضى لعدم تكليفه فيه ط (قوله بخلاف كافر أسلم) أي فإنه يقصر.

قال في الدرر لأن نيته معتبرة فكان مسافرا من الأول بخلاف الصبي فإنه من هذا الوقت يكون مسافرا، وقيل يتمان، وقيل يقصران. اهـ. والمختار الأول كما في البحر وغيره عن الخلاصة.

قال في الشرنبلالية: ولا يخفى أن الحائض لا تنزل عن رتبة الذي أسلم فكان حقها القصر مثله. اهـ.

وأجاب في نهج النجاة بأن مانعها سماوي بخلافه اهـ أي وإن كان كل منهما من أهل النية بخلاف الصبي، لكن منعها من الصلاة ما ليس بصنعها فلغت نيتها من الأول، بخلاف الكافر فإنه قادر على إزالة المانع من الابتداء فصحت نيته."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:135، ط:سعيد)

خلاصہ یہ کہ حائضہ چوں کہ نماز کی مکلف نہیں ہے؛ اس لیے اس کا قصد لغو شمار ہوگا ،کیوں کہ جب اس میں محل ہی نہیں تو وہ عمل کیسے کرے گی؟لہٰذاالمحیط البرھانی میں زیر نظر مسئلے سے متعلق موجود مذکورہ جزئیہ مفتی ٰ بہ نہیں ہے، بلکہ اتمام والا جزئیہ ہی مفتی ٰ بہ ہے،کیوں کہ اگر حائضہ نماز ،روزے کی مخاطب ہے تو پھر  فقہاء کرام  نےوجوب اور عدم وجوب صلاۃ میں آخرِ وقت کااعتبار نہ  کیاہوتا،اس کی وجہ یہی ہے کہ  حائضہ اب تک مخاطبہ نہیں  تھی،لیکن جیسے ہی آخرِ وقت میں حیض سے پاک ہو گئی تو نماز، روزے کی اہل ہو گئی اور حکم بھی متوجہ ہوا تو پھر  سفر وغیرہ کی نیت کرنا بھی درست ہوگا۔

لہٰذامحیط میں جو "لأنها مخاطبة" سے حالتِ حیض میں بھی مخاطب ہونے کی بات کی گئی ہے  وہ درست معلوم نہیں ہوتا،کیوں کہ جن احکام کا ثبوت شرعی طور پر حالتِ حیض میں ہوتا ہے حائضہ ان کی تو مخاطب ہے،لیکن وہ نماز کی مخاطب نہیں ہے،اور جب وہ نماز کی مخاطب نہیں تو اس کے حق میں نماز کا قصد اور  نیت کس طرح معتبر  ہوسکتا ہے؟غالبا اسی اشکال کے باعث  صاحبِ محیط نے "حاوی "سے اتمام کا حکم نقل کیا ہے۔

"وفي «الحاوي» : سئل عن صبي خرج من نوركارا يريد بخارى، فلما بلغ كرمة بلغ، قال: يصلي ركعتين إلى بخارى، وكذلك الكافر إذا أسلم فأما الحائض إذا طهرت من حيضها ‌تصلي ‌أربعاً إلى بخارى."

(المحيط البرهاني، كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الثاني والعشرون في صلاة السفر، ج:2، ص:41، ط:دارالكتب العلمية)

باقی قربانی کے حق میں حائضہ کے قصد کا اعتبار اس وجہ سے ہے کہ حیض وجوب ِ اضحیہ سے مانع نہیں ہے ،نہ ہی مسقط ِ اہلیت ہے،اس لحاظ سے وہاں حائضہ کی نیت معتبر ہوگی،وہ  مسافر کا حکم رکھے گی اور اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی ۔

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144506100506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں