بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا غیر محرم کے ساتھ واٹس ایپ پر گفتگو کرنا


سوال

 اگر کوئی واٹس ایپ گروپ ہے جو اللہ کے نام پر بنایا گیا ہے، اور دین اسلام کے بارے میں بنایا گیا ہے ،کہ ہم اپنی زندگی اسلام کے مطابق کیسے گزار سکتے ہیں۔،اس گروپ میں  مرد اور خواتین بھی ہیں،اگرچہ اس گروپ کے پاس چیک اینڈ بیلنس ہے کہ کسی بھی مرد کو کسی خاتون کے ساتھ ذاتی طور پر چیٹ کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن وہ موجودہ مسائل اور  اسلام کے بارے میں  چیٹ اور وائس ریکارڈنگ بھیجتے ہیں، میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام میں اس بات کی اجازت ہے کہ مرد اور عورت ایک ہی گروپ میں ہو سکتے ہیں؟ آواز کی ریکارڈنگ بھیج سکتے ہیں، اور مشترکہ گروپ میں دینِ اسلام پر بحث کر سکتے  ہیں؟

جواب

جس طرح مردو عورت کے خارجی اختلاط میں بہت سے مفاسد ہیں، اسی طرح بلکہ بعض اعتبار سے اس سےبھی بڑھ کر واٹس ایپ ، سوشل میڈیاوغیرہ کے  گروپوں میں مردوں اور عورتوں کے ایک ساتھ  ایڈ رہنے میں فتنےاور مفاسد ہیں،لہذا اس مشترکہ گروپ میں عورتوں کا شامل ہونا جائز نہیں ہے،باقی  ہر وہ شخص خواہ مرد ہو یا عورت جو  ان گروپس کو بنا اور چلا رہا ہےیا ان کا حصہ دار بن رہا ہے، وہ اپنے عمل کے بقدر مفاسد کا ذمہ دار ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال تعالى - {ولا يضربن بأرجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن} اهـ كلام المصنف (قوله وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا ‌نجيز ‌الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا ‌نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة"۔

(رد المحتار،كتاب الصلاة،‌‌باب شروط الصلاة،ج:1،ص:401،ط:دار الفكر-بيروت)

بحرالرائق میں ہے:

"وصرح في النوازل بأن نغمة المرأة عورة وبنى عليه أن تعلمها القرآن من المرأة أحب إلي من تعلمها من الأعمى ولهذا قال صلى الله عليه وسلم «التسبيح للرجال والتصفيق للنساء» فلا يجوز أن يسمعها الرجل ومشى عليه المصنف في الكافي فقال ولا تلبي جهرا؛ لأن صوتها عورة ومشى عليه صاحب المحيط في باب الأذان وفي فتح القدير وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقرآن في الصلاة فسدت كان متجها.وفي شرح المنية الأشبه أن صوتها ليس بعورة، وإنما يؤدي إلى الفتنة كما علل به صاحب الهداية وغيره في مسألة التلبية ولعلهن إنما منعن من رفع الصوت بالتسبيح في الصلاة لهذا المعنى ولا يلزم من حرمة رفع صوتها بحضرة الأجانب أن يكون عورة كما قدمناه"۔

(البحر الرائق، كتاب الصلاة،‌‌ باب شروط الصلاة، ج:1، ص:285، ط:دار الكتاب الإسلامي)

تفسیر مظہری میں ہے: 

"وروى الطبراني بسند حسن عن عمرو بن العاص ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى ان يكلم النساء الا بإذن أزواجهن"۔

(التفسير المظهري، ج:7، ص:337، ط: مكتبة الرشدية - الباكستان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں