شوہر بیوی سے دو سال تک الگ رہا بیوی کسی دوسرے مرد کے ساتھ بغیر نکاح کے رہنے لگی اور ان سے ان کا ایک بچہ بھی ہو گیا اب دو سال کے بعد اصل شوہر نے بیوی کو طلاق ثلاثہ دے دی ہے اب وہ عورت جس مرد کے ساتھ رہ رہی تھی اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہے کیا نکاح کرنا جائز ہے اور کیا عدت گزارنا بھی واجب ہے؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت کا نکاح کی حالت میں اجنبی شخص کے ساتھ رہنا اور تعلقات قائم کرنا شرعاً ناجائز اور حرام تھا، دونوں کو چاہیے کہ اپنے اس فعل پر اللہ کے حضور ندامت اور شرمندگی کے ساتھ خوب توبہ واستغفار کریں ،تاہم شوہر کے طلاق دینے کے بعد مذکورہ عورت پر عدت گزارنا واجب ہے، اور عدت گزرنے کے بعد مذکورہ عورت جس مرد کے ساتھ رہ رہی تھی اس کے ساتھ نکاح کرنابھی درست ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع
(قوله: وفي حق الحامل) أي من نكاح ولو فاسدا، فلا عدة على الحامل من زنا أصلا بحر (قوله: مطلقا) أي سواء كان عن طلاق، أو وفاة، أو متاركة، أو وطء بشبهة نهر (قوله: أو من زنا إلخ) ومثله ما لو كان الحمل في العدة كما في القهستاني والدر المنتقى. وفي الحاوي الزاهدي: إذا حبلت المعتدة وولدت تنقضي به العدة سواء كان من المطلق، أو من زنا."
(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:3، ص:511، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507102254
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن