بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا دودھ اور انسان کا خون محترم ہے


سوال

ایک انسان کو دوسرے انسان کو خون دینے کی اجازت ہے،  لیکن شوہر کو اپنی بیوی کے دودھ پینے کی اجازت نہیں،  ایسا کیوں ہے؛ کیوں کہ دونوں انسان کے اعضاء میں شامل ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ خون انسانی بدن کا جزو ہے، اور انسان کے لیے اپنے جسم کا کوئی بھی جزو اپنے اختیار سے عطیہ دینا جائز نہیں، البتہ اگر کوئی مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان جانے یا مرض طویل ہوجانے کا اندیشہ ہو  اور  اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہ ہو تو ایسی صورت حال میں خون دینا جائز  ہے ۔

اور اسی طرح بیوی کا دودھ   پینا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ  انسان اشرف المخلوقات ہے، اس کے تمام اعضاء مکرم ہیں، ان کی عظمت اور اکرام  کی وجہ سے شرعاً ان سے انتفاع حرام ہے،  اور عورت کا دودھ اس کا جز ہے، اس کی حرمت اور عظمت ہے،  بچہ کی شیرخوارگی کے زمانہ میں ضرورتاً اس کی اجازت ہے،  شیرخوارگی  (دو سال) کی عمر گزرنے کے بعد اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ دونوں چیزیں محترم ومکرم ہیں تو اس کے استعمال کی اجازت بھی  ضرورتًا دی جائے گی، عام حالت میں ان کے استعمال اور ان کو عطیہ کرنے  کی اجازت نہیں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک انسان کا خون دوسرے انسان کو دینے کی اجازت بھی ضرورت اور مجبوری کے وقت ہے، عام حالت میں اجازت نہیں ہے،  اور جس عمر میں بچے کو ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے، اس وقت ماں کا دودھ پینے کی اجازت بھی دی گئی ہے، جب کہ شوہر کو بیوی کا دودھ پینے کہ نہ ضرورتِ شرعیہ ہے نہ حاجتِ شرعیہ؛ لہٰذا یہ اپنی اصلی حالت میں ممنوع رہے گا۔ 

{وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا}[الإسراء: 70]

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 211):

"(ولم يبح الإرضاع بعد موته)؛ لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح، شرح الوهبانية".

فتاوی شامی میں ہے:

"(وَلَمْ يُبَحْ الْإِرْضَاعُ بَعْدَ مَوْتِهِ)؛ لِأَنَّهُ جَزْءُ آدَمِيٍّ، وَالِانْتِفَاعُ بِهِ لِغَيْرِ ضَرُورَةٍ حَرَامٌ عَلَى الصَّحِيحِ، شَرْحُ الْوَهْبَانِيَّةِ. وَفِي الْبَحْرِ: لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ الْمَأْكُولِ، كَمَا مَرَّ. (قَوْلُهُ: وَفِي الْبَحْرِ) عِبَارَتُهُ: وَعَلَى هَذَا أَيْ الْفَرْعِ الْمَذْكُورِ لَا يَجُوزُ الِانْتِفَاعُ بِهِ لِلتَّدَاوِي. قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَأَهْلُ الطِّبِّ يُثْبِتُونَ لِلَبَنِ الْبِنْتِ أَيْ الَّذِي نَزَلَ بِسَبَبِ بِنْتٍ مُرْضِعَةٍ نَفْعًا لِوَجَعِ الْعَيْنِ. وَاخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِيهِ، قِيلَ: لَا يَجُوزُ، وَقِيلَ: يَجُوزُ إذَا عَلِمَ أَنَّهُ يَزُولُ بِهِ الرَّمَدُ، وَلَا يَخْفَى أَنَّ حَقِيقَةَ الْعِلْمِ مُتَعَذِّرَةٌ، فَالْمُرَادُ إذَا غَلَبَ عَلَى الظَّنِّ وَإِلَّا فَهُوَ مَعْنَى الْمَنْعِ اهـ. وَلَا يَخْفَى أَنَّ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ لَا يَجُوزُ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ فَإِنَّهُ لَا يُشْرَبُ أَصْلًا. اهـ. (قَوْلُهُ: بِالْمُحَرَّمِ) أَيْ الْمُحَرَّمُ اسْتِعْمَالُهُ طَاهِرًا كَانَ أَوْ نَجَسًا ح (قَوْلُهُ: كَمَا مَرَّ) أَيْ قُبَيْلَ فَصْلِ الْبِئْرِ حَيْثُ قَالَ: فَرْعٌ اُخْتُلِفَ فِي التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ. وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ الْمَنْعُ كَمَا فِي إرْضَاعٍ الْبَحْرِ، لَكِنْ نَقَلَ الْمُصَنِّفُ ثَمَّةَ وَهُنَا عَنْ الْحَاوِي: وَقِيلَ يُرَخَّصُ إذَا عَلِمَ فِيهِ الشِّفَاءَ وَلَمْ يَعْلَمْ دَوَاءً آخَرَ كَمَا خُصَّ الْخَمْرُ لِلْعَطْشَانِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. اهـ".

(3 / 211، باب الرضاع، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں