بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 جُمادى الأولى 1446ھ 05 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا بغیر محرم گھر سے نکلنا


سوال

باعثِ مجبوری عورت کے محرم نہ ہونے کی صورت میں گھر سے باہر نکلنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

   قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا، اور زمانۂ جاہلیت کے دستور کے موافق  بے پردگی کے ساتھ اور بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے سے منع کیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت چھپانے کی چیز ہے،  جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تانک جھانک میں لگ جاتا ہے۔ اس لیے عام حالات  میں بلا ضرورت عورت کا گھر سے نکلنا درست نہیں ہے، خاص طور پر موجودہ ماحول میں عورت کے لیے گھر سے  باہر نکلنے  میں بہت سے  مفاسد وخرابیاں  اور احکامِ شرعیہ کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، فقہائے کرام نے شرعی وطبعی ضرورتوں کے لیے (جب کہ ضرورت ایسی ہو کہ بغیر باہر نکلے مصیبت ٹلنے یا کام پورا ہونے کی کوئی سبیل نہ ہو) عورت کو  محرم کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، لیکن وہ بھی اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ عورت مکمل پردے کی حالت میں ہو، اور چادر یا برقع بھی ایسا ہو جو پورے بدن کو چھپاتا ہو، دیدہ زیب ونقش ونگار والا، زرق برق، نظروں کو خِیرہ کردینے والا نہ ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں عورتوں  کے لیے  شدید ضرورت کی بنا پر اور کوئی شرعی محذور نہ پائے جانے کی صورت میں پردہ کے پورے اہتمام کے ساتھ یعنی برقعہ پہن کر چہرہ چھپا کر بغیر محرم کے باہر نکلنے کی  اجازت ہے، لیکن بلاضرورت یا   بے پردگی  کے ساتھ   باہر نکلنا جائز  نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ گھر سے باہر نکلنے سے مراد اپنے شہر کی حدود کے اندر اندر جانا ہے، اگر شہر سے باہر مسافتِ سفر یا اس سے زیادہ دور جانا ہو تو عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے،  اور سفر کرنے کی صورت میں وہ گناہ گار ہوگی جس پر  توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے،  حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی مرد کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر اس حال میں کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو، تو ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ میرا نام فلاں فلاں غزوے (جہادی لشکر) میں لکھا گیا ہے، اور میری بیوی حج کے لیے نکل چکی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اب تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔ (بخاری ومسلم، بحوالہ مشکاۃ)

دیکھیے! حضور ﷺ کی موجودگی میں میاں بیوی دونوں کے کتنے مبارک اور اہم اسفار ہیں، شوہر کا نام حضور ﷺ کے لشکر میں بطور مجاہد لکھا جاچکاہے، اور بیوی حج کے مبارک سفر پر حضور ﷺ کے مبارک زمانے میں قبیلے کی مسلمان عورتوں اور مردوں کی ہم راہی میں روانہ ہوچکی ہیں،  لیکن  آپ ﷺ نے لشکر سے ان کا نام کاٹ کر اہلیہ کے ساتھ حج پر روانہ فرمایا؛  تاکہ اہلیہ کا سفر (گو حج کا سفر تھا) بلا محرم نہ ہو؛ اسی لئے  علماء فرماتے ہیں  اگر کوئی خاتون  بلامحرم حج یا عمرہ کے سفر پر بھی گئی تو وہ گناہ گار ہوگی،   اگرچہ  حج اور عمرہ ادا ہوجائے گا۔

قرآن کریم میں ہے:

{ وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [الأحزاب: 33]

ترجمہ: اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکاۃ دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول (علیہ السلام) کا کہنا مانو ۔ (بیان القرآن)

’’ أحکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللّٰہ ‘‘  میں ہے:

"قال تعالی : {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی}  [الأحزاب :۳۳]فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها ، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ... فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص ، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالهابالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب ، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع". (۳/۳۱۷ – ۳۱۹ )

حدیث شریف میں ہے:

عن أبي أحوص عن عبد اللّٰه  عن النبي ﷺ قال : ’’المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشیطان.

(سنن الترمذی[۱/۲۲۱ ]، رقم الحدیث :۱۱۷۳)

حدیث شریف میں ہے:

«إن المرأة تقبل في صورة شيطان، وتدبر في صورة شيطان، فإذا أبصر أحدكم امرأة فليأت أهله، فإن ذلك يرد ما في نفسه».

(صحيح مسلم (2/ 1021)

کنز العمال ‘‘ میں ہے:

" عن ابن عمر مرفوعاّ: ’’ لیس للنساء نصیب في الخروج إلا مضطرة ‘‘.  (۱۶/۳۹۱، الفصل الأول في الترهیبات)

فتاوی شامی میں ہے:

وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم.

( رد المحتار 3/ 146 ط : سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201201244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں