بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 رجب 1446ھ 21 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

عورت کا بچہ کی پیدائش کے بعد مالش کروانا/ حیض کی وجہ سے جسم دبوانا


سوال

عورت   بچے  کی پیدائش کے بعد مالش کروا سکتی ہے؟یا حیض کی  وجہ  سے کسی عورت  سے  دبوا  سکتی  ہے؟

جواب

مسلمان عورت کا ستر  دوسری  مسلمان عورتوں   کے  سامنے ناف  کے نیچے سے  گھٹنوں  تک کا حصہ ہے ،عورت کے اس حصہ کی طرف دیکھنایا چھونا  دیگر عورتوں کے لیے جائز نہیں ہے ،اس حصہ کے علاوہ عورت کے  جسم کے بقیہ اعضاء کو  دیکھنا اور  چھونا  دوسری مسلمان عورت کے لیے جائز ہے، جب کہ غیر مسلم یا فسق و فجور میں  مبتلا عورتوں کے سامنے مسلمان عورت کو پورا جسم چھپانا لازم ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  عورت  کے لیے ناف کے نیچے سے گھٹنوں تک کے علاوہ جسم کے بقیہ  اعضا ء کی مالش کروانا یا دبوانا جائز ہے ،بشرطیکہ اس سے کسی قسم کے فتنہ اور شہوت  کا اندیشہ نہ ہو ۔البتہ اگر شوہر خود اپنی بیوی کی مالش کرے تو اس کے لیے  ناف اور گھٹنوں  کے درمیان کے حصہ کی مالش کرنا بھی جائز ہے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 371):

"(وتنظر المرأة المسلمة من المرأة كالرجل من الرجل) وقيل كالرجل لمحرمه والأول أصح، سراج."

طحطاوی 4/185:

"و لایجوز للمرأة أن تنظر إلی بطن امرأة بشهوة، سراجیة". (طحطاوي ۴/ ۱۸۵)

الفتاوى الهندية (5/ 330):

"و يجوز النظر إلى الفرج للخاتن و للقابلة و للطبيب عند المعالجة و يغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية."

تحفة الفقهاء (3/ 334):

"و ما يباح النظر يباح المس من غير شهوة.

و لايباح المسّ و النظر إلى ما بين السرّة و الركبة إلا في حالة الضرورة بأن كانت المرأة ختانة تختن النساء أو كانت تنظر إلى الفرج لمعرفة البكارة أو كان في موضع العورة قرح أو جرح يحتاج إلى التداوي."

الفتاوى الهندية (5/ 327):

"و لاينبغي للمرأة الصالحة أن تنظر إليها المرأة الفاجرة؛ لأنها تصفها عند الرجال فلاتضع جلبابها، و لا خمارها عندها، و لايحل أيضًا لامرأة مؤمنة أن تكشف عورتها عند أمة مشركة أو كتابية إلا أن تكون أمة لها، كذا في السراج الوهاج."

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144211201732

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں