بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا اپنے سسرال والوں کے ساتھ اچھا رویہ نہ رکھنے کا حکم


سوال

میری ایک بیٹی دو سال تین ماہ کی ہے، میری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں، اور الگ رہتاہوں، میری بیوی بات بات پر میرے گھر والوں کے خلاف بکواس کرتی رہتی ہے، جو کہ کوئی بھی انسان برداشت نہیں کرسکتا، میں اسے کہتا ہوں کہ ہفتے میں ایک دن سسرال چکر لگایا کرو، لیکن بہت مشکل سے جاتی ہے، کہتی ہے کہ میں نے تم سے شادی کی ہے، تمہارے خاندان سے نہیں، بہت کوشش کرتا ہوں کہ گھر خراب نہ ہو ، مگر بد تمیزی گھر میں شور شربا کرنا یہ روٹین ہے، برائے مہر بانی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

ازدواجی زندگی پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں،  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں، دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشاد نبوی ہے:  (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، اسی اطاعت شعاری کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب شوہر بیوی کو اپنا طبعی تقاضا پورا کرنے کے لیے بلائے تو بیوی انکار نہ کرے، اس سلسلے میں حدیثِ مبارک میں واضح تعلیمات موجود ہیں، چنانچہ ارشادِ مباک ہے: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیےبلائے اور بیوی انکار کرے، جس پر شوہر غصہ کی حالت میں رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، دوسری روایت میں ہے: جب شوہر اپنی بیوی کو اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تو وہ اس کے پاس چلی جائے اگر چہ روٹی پکانے کے لیے تنور پر کھڑی ہو۔

لہٰذا مذکورہ بالا فرامینِ نبوی کی رو سے صورتِ مسئولہ میں   اگر سائل کا بیان واقعۃً درست ہے تو سائل کی بیوی کو چاہیے کہ وہ پر سکون  اور اطمینان کی زندگی گزارنے کے لیے اپنےاخلاقی فرائض پورا کرتے ہوئے اپنے اور شوہر کے  خاندان کو اپنا خاندان سجھے، اور کسی کو برے الفاظ سے یاد نہ کرے ، اس لیے کہ میاں بیوی کے لیے ایک دوسرے کے والدین( ساس ، سسر) ان کے اپنے والدین کی مانند ہیں، ایسا رویہ اپنابالکل درست نہیں ہے، اور ایسے رویے کی وجہ سے اولاد پر بھی برے اخلاق کے اثرات پڑتے ہیں، اور سائل کو چاہیے کہ وہ بھی خود اپنی حکمت سے سمجھائے، سائل کی بات نہ مانے تو خاندا ن کے معتبر افراد کے سامنے یہ بات رکھے تاکہ وہ  سائل کی بیوی کو سمجھائیں، الغرض حتی الامکان میاں بیوی باہمی رواداری سے اس رشتہ کا نباہ ممکن بنانے کی کوشش کریں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح» . متفق عليه. وفي رواية لهما قال: «والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطًا عليها حتى يرضى عنها»".

 (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 280 ط: قديمي)

وفيه أيضا:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي".

(مشکاۃ المصابیح، 2/282،  باب عشرۃ النساء، ط؛ قدیمی)

وفيه أيضا:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي".

(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں