بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 جُمادى الأولى 1446ھ 10 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا آدھی آستین والی قمیض یا پینٹ شرٹ پہننا / عورت کا اپنی تصاویر انٹرنیٹ پر شیئر کرنا


سوال

1-  اگر کوئی لڑکی آدھی آستین والی قمیض یا ٹی شرٹ اور  پینٹ پہنتی ہے ،شرٹ  کہنی کے اوپر ہے تو کیا اس کے  لیے اس لباس کی اجازت ہے؟

2- اگر اس قسم کے کپڑے دکھائے جاتے ہیں اور وہ اپنی تصاویر انٹرنیٹ پر شیئر کرتی  ہے،تو  غیر محرم ان کی تصاویر پر نگاہ ڈالے گا تو کیا وہ اس طرح کے فعل کے لیے قصوروار ہوگی؟

جواب

1- عورت کے لیے اپنے گھر میں تنہائی کی صورت میں یا شوہر کے سامنے تو   آدھی آستین والی قمیص  یا  پینٹ شرٹ پہننے  کی  گنجائش  ہے،  بشرطیکہ پینٹ شرٹ پہننے میں غیر اقوام کی مشابہت اور فیشن کی پیروی مقصود نہ ہو، ورنہ اس کی اجازت بھی نہیں ہوگی،  جب کہ  دیگر محارم اور بچوں کے سامنے ایسا لباس پہننا جائز نہیں جس سے جسم کی ساخت نمایاں ہوتی ہو۔ اس پہلو سے کہ یہ ہمارا لباس نہیں اور اسے پہن کر بچوں کو اور دیکھنے والوں کو ترغیب ہوگی ، لہٰذا شوہر کے سامنے اور گھر میں تنہائی میں بھی اس سے اجتناب ہی اچھا ہے۔ اور اگر پینٹ شرٹ کُھلی/ ڈھیلی ہو جس سے جسم کی ساخت نمایاں نہ ہوتی ہو اور اس کا کپڑا بھی موٹا ہو  تب بھی خواتین کے لیے یہ لباس پسندیدہ نہیں ہوگا، خصوصًا جب کہ دیکھنے والوں کی  ترغیب یا اجنبی کی توجہ کا باعث ہو یا بچوں کی تربیت متاثر ہو۔

باقی شریعت نے عورت کے لیے لباس  متعین نہیں کیا، البتہ اس کے اصول متعین کردیے ہیں، جن کی بنیاد یہ ہے :

1- لباس ساتر ہو، یعنی جسم کے جس حصے کو چھپانا لازم ہے، اس حصے اور اس کی بناوٹ کو  چھپالے۔

2- اجنبی کے لیے جاذبِ نظر نہ ہو۔

3- غیر اقوام یا مردوں کی مشابہت نہ ہو۔

لہٰذا عورت کو ایسا ڈھیلا ڈھالا ساتر لباس پہننا چاہیے  جس سے نہ صرف اُس کا پورا بدن ڈھک جائے؛ بلکہ اعضاء کی بناوٹ اور اُبھار بھی ظاہر نہ ہو۔ اور عورت کے لیے اَجنبی مردوں کے سامنے پورے جسم (سر، چہرے، گردن، کلائیوں اور پنڈلی ٹخنوں سمیت) کا پردہ ہے، لہٰذا غیر محرم کے سامنے تو پورا جسم اور اس کی ساخت چھپانا لازم ہے، جب کہ محرم کے سامنے سر، چہرہ، گردن اور اس سے متصل (سینے سے اوپر)  حصہ، ہتھیلیاں، پاؤں، کلائیاں اور پنڈلی کھول سکتی ہے، باقی اعضاء  کا محرم سے بھی چھپانا لازم ہے، اور اگر کسی محرم سے اندیشہ ہو تو اس کے سامنے مذکورہ اعضاء بھی چھپانا لازم ہوگا۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

قال اللّٰہ تعالیٰ:{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [الأحزاب: ۵۹]

"ومن للتبعیض، ویحتمل ذلك علی ما في الکشاف وجهین: أحدهما أن یکون المراد بالبعض واحدًا من الجلابیب وإدناء ذلك علیهن أن یلبسنه علی البدن کلّه، وثانیهما أن یکون المراد بالبعض جزءًا منه، وإدناء ذلك علیهنّ أن یتقنّعن فیسترن الرأس والوجه بجزء من الجلباب مع إرخاء الباقي علی بقیة البدن." (روح المعاني ۱۲؍۱۲۸)

قرآن کریم میں ہے: 

وقال تعالیٰ:{وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰی}[الأحزاب: ۳۳]

2- واضح رہے کسی شدید ضرورت کے بغیر کسی بھی جان دار کی تصویر  بنانا،  دیکھنا، دکھانا یا اپنے پاس رکھنا شرعًا ناجائز ہے،   احادیثِ مبارکہ میں جان دار کی تصویر  کی حرمت پر سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ  کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب تصویر بنانے والے کو ہوگا۔  (صحیح مسلم،  برقم: 2107)اور تصویر جب عورت کی ہو تو تصویر کے گناہ کے ساتھ ساتھ اس میں بےحجابی کا گناہ بھی ہوتاہے، اس لیے شرعاً تصویر کو تلف کرنے کا حکم دیاگیاہے۔

لہذ ا صورتِ مسئولہ  میں  عورت کے لیے کپڑوں کے اشتہار کے لیے   اپنی تصاویر انٹر نیٹ پر شیئر کرنا  جائز نہیں ہے  اور  جو لوگ ان تصاویر دیکھیں گے، ان کے ساتھ ساتھ   اس عورت کوبھی گناہ ہوگا ،کیوں کہ  یہ عورت ان لوگوں کے گناہ میں واقع ہونے کا سبب  بنی ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ"

 (حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد) 

وفي أحكام القرآن للجصاص:

"فائدة: قوله: {ولاتكونوا أول كافر به} وإن كان الكفر قبيحًا من الأول والآخر منهيًّا عنه الجميع أن السابق إلى الكفر يقتدي به غيره فيكون أعظم لمأثمه وجرمه كقوله تعالى: {وليحملن أثقالهم وأثقالا مع أثقالهم} وقوله: {من أجل ذلك كتبنا على بني إسرائيل أنه من قتل نفسا بغير نفس أو فساد في الأرض فكأنما قتل الناس جميعا}

وروي عن النبي عليه السلام إن على ابن آدم القاتل كفلًا من الإثم في كل قتيل ظلمًا لأنه أول من سن القتل. وقال عليه السلام: (من سنّ سنّةً حسنةً فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة."

(1/ 38الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 200108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں