بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے پاس حج کے لیے محرم کا خرچہ نہ ہونے کی صورت میں عمرہ کرنے کا حکم


سوال

عورت پر حج فرض ہے، لیکن محرم کا خرچہ نہیں ہے، تو کیا وہ ابھی عمرہ کر لے اور پھر جب بعد میں اس کے پاس اپنا اور محرم کا زاد راہ اکٹھا ہو جائے تو پھر وہ حج کر لے، کیا ایسا کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ عورت پر حج فرض ہونے کے بعد ادا کرنا لازم  ہونے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کہ اُس کے ساتھ حج کرنے کے لیے محرم بھی  موجود ہو، اگر عورت  مال دار ہو اور اس کا شوہر یا کوئی محرم نہ ہو  یا محرم ہو  مگر محرم کے اخراجات برداشت نہ  کرسکتی  ہو تو  ایسی عورت پر حج فرض کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی،  اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ انتظار کرتی رہے، تاآں کہ محرم کا بندوبست ہوجائے یا محرم کے اخراجات کا بندوبست ہوجائے۔ اگر زندگی بھر   بندوبست نہ ہوسکے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مرنے سے قبل حجِ  بدل کی وصیت کرجائے، تاکہ لواحقین حج بدل کرسکیں۔

باقی اگر مذکورہ خاتون ابھی عمرہ کرنا چاہتی ہیں تو کر سکتی ہیں، لیکن عمرہ کے سفر کے لیے بھی محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے، عورت کے لیے تنہا سفرِ شرعی کرنا ممنوع ہے۔

    فتاویٰ هنديه میں ہے:

"(ومنها ‌المحرم ‌للمرأة) شابة كانت أو عجوزا إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع."

(کتاب المناسک، الباب الاول، جلد:1، صفحہ: 219، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں