بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء کے لیے وصیت کا حکم


سوال

میرے نانا ابو کی وفات سن2014 میں ہوئی تھی، ان کے پسماندگان میں 5بیٹیاں، 1بیوہ، 2پوتیاں اور 1بھائی تھا، ان کا 1بیٹا تھا جو کہ ان کی زندگی میں وفات پا گیا تھا، وفات سے عرصہ 10برس پہلے نانا ابو نے اپنی جائیداد کی وصیت بھائی کی گواہی کے ساتھ سٹامپ پیپر پر لکھ لی تھی جس میں اپنی کل جائیداد کو برابر 8حصوں (5بیٹیاں، 1بیوہ اور 2 پوتیاں) میں تقسیم کا لکھا تھا، نانا ابو کی وفات کے بعد ان کےبھائی کی رضامندی سے اسی وصیت نامہ کے مطابق تمام جائیداد کو وارثان کے نام قانونی طریقہ سے منتقل کیا گیا، جب کہ بھائی کو معلوم تھا کہ شرعاً ان کا اپنے مرحوم بھائی کی جائیداد میں حصہ بنتا ہے ،لیکن انہوں نے مطالبہ نہیں کیا بلکہ کہا کہ شرعی کے بجائے قانونی تقسیم کر دی جائے جس کے گواہ موجود ہیں، نانا ابو کی وفات کے بعد تقریباً 4سال تک ان کے بھائی حیات رہے، اب ان کی بھی وفات ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کیا یہ تقسیم درست ہے؟ اگر درست نہیں تو راہ نمائی فرما دیجیے۔

جواب

صورت ِ مسئولہ  میں چوں کہ بھائی نے اپنی  خوشی سے   تمام ورثاء کے درمیان  وصیت کے مطابق  برابر ی کے اعتبار سے جائیداد تقسیم کردی ہے تو یہ تقسیم درست ہے ،دوبارہ تقسیم کی ضرورت نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة ولو أوصى لوارثه ولأجنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك، كذا في فتاوى قاضي خان".

(کتاب الوصایا ،ج:6،ص:90،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں