نیت کی کہ فلاں کام ہو جائے گا تو شکرانے کا روزہ رکھوں گا،مگر آپریشن ہو گیا،روزہ نہیں رکھ سکتا نعم البدل کیا ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے صرف دل میں نیت کی تھی کہ فلاں کام ہوگیا تو شکرانے کا روزہ رکھوں گا، زبان سے کچھ نہیں کہا تھا تو اس نیت سے نذر منعقد نہیں ہوئی، لہٰذا س نیت کی وجہ سے شکرانے کا روزہ رکھنا واجب نہیں ہے۔
البتہ اگر مذکورہ شخص نے دل کے ارادے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی کہا تھا کہ فلاں کام ہوگیا تو شکرانے کا روزہ رکھوں گا، تو اس صورت میں نذر منعقد ہوگئی تھی، اور فلاں کام ہونے بعد اس پر شکرانے کا روزہ رکھنا واجب ہے اور جب تک روزہ رکھنے کی طاقت اور استعداد ہو تب تک نذر پوری کرنا ہی لازم ہے۔
ابھی اگر بیماری کی وجہ سےروزوں کی استطاعت نہیں رہی، لیکن آئندہ صحت ملنے کی امید ہے تو نیت کرلیں کہ صحت مند ہوتے ہی اس نذر کو پورا کروں گا، اور اس صورت میں روزہ ہی رکھنا ہوگا۔ اور اگر خدانخواستہ آئندہ صحت کی امید نہ رہی ہو تو ایک روزے کے بدلے ایک صدقہ فطر کے برابر فدیہ واجب ہوگا۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"وقدروي عن محمد قال: إن علق النذر بشرط یرید كونه كقوله: إن شفى ﷲ مریضي أو ردّ غائبي لایخرج عنه بالكفارة، كذا في المبسوط. ویلزمه عین ما سمی، كذا في فتاوى قاضي خان".
شامی میں ہے:
"ولو قال مریض: ﷲ علي أن أصوم شهراً، فمات قبل أن یصح لا شيء علیه، وإن صح ولو یوماً ولم یصم لزمه الو صیة بجمیعه علی الصحیح، کا لصحیح إذا نذر ذلک ومات قبل تمام الشهر لزمه الو صیة با لجمیع بالإجماع"... نذر صوم رجب فدخل وهو مريض أفطر وقضى كرمضان أو صوم الأبد فضعف لاشتغاله بالمعيشة أفطر وكفر كما مر.
(قوله وكفر) أي فدى (قوله كما مر) أي في الشيخ الفاني من أنه يطعم كالفطرة.
(الدر المختار مع ردالمحتار 2/ 438ط:سعيد )
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144112200442
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن