بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپریشن کے لیے ماہر دیانت دار ڈاکٹر حضرات کے مشورہ پر عمل کرنا چاہیے


سوال

 ایک مریض ہے ،جس کو دین دار اور مستند ڈاکٹر وں نے کہا ہے کہ  آپریشن نہ کرنے پر کسی بھی وقت موت واقع ہوسکتی ہے ؛ کیوں کہ اس کے دل کی رگ پیٹ میں گردوں کے پاس پہنچ کر  پھٹ چکی ہے، جس سے ایک بڑا بلبلا بنا ہوا ہے، جو معمولی حرکت کرنے سے اور بلڈ پریشر بڑھنے سے کسی بھی وقت پھٹ  سکتا ہے، اس صورت میں بچنے کے چانسسز بالکل بھی نہیں اور مریض گزشتہ 5 مہینوں سے شدید تکلیف میں بھی مبتلا ہے اور بقول ڈاکٹرز کے کہ اگر آپریشن کرتے ہیں تو آپریشن میں بچنے کے چانسسز 30 فیصد سے زیادہ ہیں ،پر مریض آپریشن ٹیبل پر مرنے کے چانسسز 70 فیصد ہیں،  اگر اس مریض کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹر مریض سے  غلط بیانی  کریں کہ آپ غم نہ کریں آپ کے بچنے کے چانسسز 80 یا 90 فیصد ہیں اور  کوئی خطرے والی بات نہیں، اس طرح مریض کو آپریشن کے  لیے راضی کریں اور خدانخواستہ مریض کی موت واقع ہو جاتی ہے، تو کیا اس صورت میں اس کا خون اس ڈاکٹر کے ذمے ہوگا یا نہیں؟ جب کہ ڈاکٹر مکمل مہارت اور  دیانتداری سے اس کو بچانے کی کوشش کررہےہوں اور ڈاکٹر کو معلوم ہو کہ آپریشن نہ کروانے پر بھی موت سسک سسک آکر  آئے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب  ظاہری اسباب کی روشنی میں آپریشن نہ کرانے کی صورت میں کسی بھی وقت موت کے واقع ہونے کا خطرہ ہے اور آپریشن میں بھی  صحیح ہونے کے امکانات کم ہیں   تو  ماہر دیانت دار ڈاکٹر حضرات  سے رجوع کریں اور ان کے مشورہ پر عمل کریں ،اگر  ڈاکٹر آپریشن کو ضروری سمجھیں اور اس میں مریض کے بچنے کے امکانات بھی ہوں اور آپریشن کے دوران   خدانخواستہ  مریض کا انتقال ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا جب کہ اس نے مکمل مہارت اور  دیانت داری کے ساتھ آپریشن کیا ہو ،اس میں کسی قسم کی غفلت نہ کی ہو۔

اگر ڈاکٹر پر امید ہوں اور ماہر دیانت دار بھی ہوں تو مریض سے آپریشن کی اجازت  لینے  کے لیے اس سے ایسی باتیں کرنا درست ہے کہ جس سے وہ مطمئن ہواور اپنے آپ کو بہتر سمجھے ،مثلا ً یہ کہنا کہ امید ہے ان شاء اللہ  آپریشن کامیاب ہوگا اور اللہ پاک صحت عطافرمائیں گے ،صراحتاً  کوئی جھوٹ یا غلط بیانی نہ کریں ۔

وفي الفتاوى الهندية :

"و لا بأس بشق المثانة إذا كانت فيها حصاة، و في الكيسانيات: في الجراحات المخوفة و القروح العظيمة و الحصاة الواقعة في المثانة و نحوها إن قيل: قد ينجو و قد يموت، أو ينجو و لايموت يعالج، و إن قيل: لاينجو أصلًا لايداوى بل يترك، كذا في الظهيرية."

(5 / 360ط:دار الفكر)

وفي الموسوعة الفقهية الكويتية:

قال الدّسوقيّ : إذا ختن الخاتن صبيّا ، أو سقى الطّبيب مريضا دواء ، أو قطع له شيئا ، أو كواه فمات من ذلك ، فلا ضمان على واحد منهما لا في ماله ولا على عاقلته ، لأنّه ممّا فيه تغرير ، فكأنّ صاحبه هو الّذي عرّضه لما أصابه . وهذا إذا كان الخاتن أو الطّبيب من أهل المعرفة ، ولم يخطئ في فعله . فإذا كان أخطأ في فعله - والحال أنّه من أهل المعرفة - فالدّية على عاقلته .فإن لم يكن من أهل المعرفة عوقب ...وفي القنية : سئل محمّد نجم الدّين عن صبيّة سقطت من سطح ، فانفتح رأسها ، فقال كثير من الجرّاحين : إن شققتم رأسها تموت . وقال واحد منهم : إن لم تشقّوه اليوم تموت ، وأنا أشقّه وأبرئها ، فشقّه فماتت بعد يوم أو يومين . هل يضمن ؟ فتأمّل مليّا ثمّ قال : لا ، إذا كان الشّقّ بإذن، وكان الشّقّ معتادا ، ولم يكن فاحشا خارج الرّسم - أي العادة -."

(13/ 141ط:وزارة الأوقاف الشؤن الإسلامية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں