بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آپریشن شدہ جانور کی قربانی کا حکم


سوال

آپریشن شدہ جانور کی قربانی کیساہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں استفتاء میں اس امر کی وضاحت نہیں ہے کہ جانور کا آپریشن کس نوعیت  کا کیا گیا ہے، بہر کیف اگر آپریشن کر کے جانور کے ظاهری جسم سے کسی عضوکا ایک تہائی یا اس سے زیادہ کاٹ کر الگ نہ کیا گیا ہو اور اس کے جسم پر صرف  ٹانکے کے نشانات ہوں اور جانور میں قربانی کےدرست ہونے کی دیگر شرائط بھی پائی جائیں اور آپریشن کے بعد جانور چلتا پھرتا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے، اسی طرح مذکورہ شرائط کے ساتھ  جانور کا آپریشن کرکے اس کے اندر سے کوئی عضو کاٹ کر الگ کیا گیا ہوتو بھی اس کی قربانی درست ہے، لیکن اگر ظاہری اعضاء میں سے کوئی عضو مکمل یا ایک تہائی سے زیادہ کاٹ کر الگ کردیا گیاہو تو پھر اس کی قربانی درست  نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي الجامع: أنه إذا کان ذهب الثلث أو أقلّ جاز، و إن کان أکثر لایجوز، و الصحیح أنّ الثلث وما دونه قلیل، وما زاد علیه کثیر، وعلیه الفتوی."

(ج:5، ص:298۔ط:رشیدیه)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  میں ہے:

"ويضحي بالجماء والخصي والثولاء) أي المجنونة (إذا لم يمنعها من السوم والرعي) (، وإن منعها لا) تجوز التضحية بها (والجرباء السمينة) فلو مهزولة لم يجز، لأن الجرب في اللحم نقص (لا) (بالعمياء والعوراء والعجفاء) المهزولة التي لا مخ في عظامها (والعرجاء التي لا تمشي إلى المنسك) أي المذبح، والمريضة البين مرضها (ومقطوع أكثر الأذن أو الذنب أو العين) أي التي ذهب أكثر نور عينها فأطلق القطع على الذهاب مجازا، وإنما يعرف بتقريب العلف (أو) أكثر (الألية) لأن للأكثر حكم الكل بقاء وذهابا فيكفي بقاء الأكثر، وعليه الفتوى مجتبى (ولا) (بالهتماء) التي لا أسنان لها، ويكفي بقاء الأكثر، وقيل ما تعتلف به (والسكاء) التي لا أذن لها خلقة فلو لها أذن صغيرة خلقة أجزأت زيلعي (والجذاء) مقطوعة رءوس ضرعها أو يابستها، ولا الجدعاء: مقطوعة الأنف، ولا المصرمة أطباؤها: وهي التي عولجت حتى انقطع لبنها، ولا التي لا ألية لها خلقة مجتبى، ولا بالخنثى لأن لحمها لا ينضج شرح وهبانية، وتمامه فيه (و) لا (الجلالة) التي تأكل العذرة ولا تأكل غيرها."

(ج:6،ص:323،ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144312100208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں