بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادنٹنی کا دودھ اور پیشاب پینے کا حکم


سوال

اونٹنی کا دودھ اور پیشاب پینے کی مقدار کیا ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ اونٹنی کا دودھ پینا جائز ہے جب کہ اس کا پیشاب ناپاک اور اس کا پینا احناف کے نزدیک جائز نہیں ہے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قوم کے لیے اونٹنی کا پیشاب علاج کے لیے تجویز فرمایا تھا اس کی کئی توجیہ شراح حدیث نے بیان کی ہیں۔

1- رسول اللہ ﷺ نے اونٹ کا پیشاب پینا تجویز نہیں فرمایا تھا، بلکہ استعمال کا ذکر فرمایا تھا، اور یہ خارجی استعمال بھی ہوسکتاہے، بعض راویوں نے اونٹ کے پیشاب کے استعمال کا مطلب پینا سمجھا تو بعض روایات میں پینے کا ذکر کردیا یا اس قبیلے کے لوگوں نے سمجھا کہ پینا مراد ہے اور انہوں اونٹ کا پیشاب پیا بھی۔

2- اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اونٹ کا پیشاب پینے کا ہی فرمایا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی بتادیا گیا تھا کہ ان کی شفا اس کے علاوہ نہیں ہے، اور اگر واقعۃً ایسی اضطراری صورتِ حال پیش آجائے یعنی کوئی جائز، حلال دوا نہ ہو اور مرض ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان دین دار ماہر ڈاکٹر یقینی طور پر کہیں کہ فلاں (ناپاک/ ممنوعہ) چیز میں شفا یقینی ہے، تو شدید ضرورت کی حالت میں اس علاج کی گنجائش ہوتی ہے۔  اسی طرح حالتِ اضطرار میں شریعت نے مردار  کے استعمال کی بھی بقدرِ ضرورت استعمال کی اجازت دی ہے۔ یعنی یہ اجازت عام حالات کے اعتبار سے نہیں ہے،  جیسا کہ اگر شراب کے علاوہ کچھ کھانے یا پینے کا نہ ہو اور جان جانے کا قوی اندیشہ ہو تو جان بچانے کے لیے بقدر ضرورت شراب پینے کی اجازت ہوجاتی ہے۔

3۔ یہ حکم عمومی نہیں تھا، بل کہ خاص اس قوم کے ساتھ مخصوص تھا۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"وقال أبو حنيفة والشافعي وأبو يوسف وأبو ثور وآخرون كثيرون: الأبوال كلها نجسة إلا ما عفي عنه، وأجابوا عنه بأن ما في حديث العرنيين قد كان للضرورة، فليس فيه دليل على أنه يباح في غير حال الضرورة، لأن ثمة أشياء أبيحت في الضرورات ولم تبح في غيرها  والجواب المقنع في ذلك أنه، عليه الصلاة والسلام، عرف بطريق الوحي شفاهم، والاستشفاء بالحرام جائز عند التيقن بحصول الشفاء، كتناول الميتة في المخصمة، والخمر عند العطش، وإساغة اللقمة، وإنما لا يباح ما لا يستيقن حصول الشفاء به  كتناول الميتة في المخصمة، والخمر عند العطش، وإساغة اللقمة، وإنما لا يباح ما لا يستيقن حصول الشفاء به فإن قلت: هل لأبوال الإبل تأثير في الاستشفاء حتى أمرهم صلى الله عليه وسلم بذلك؟ قلت: قد كانت إبله صلى الله عليه وسلم ترعى الشيح والقيصوم، وأبوال الإبل التي ترعى ذلك وألبانها تدخل في علاج نوع من أنواع الاستشفاء، فإذا كان كذلك كان الأمر في هذا أنه، عليه الصلاة والسلام، عرف من طريق الوحي كون هذه للشفاء، وعرف أيضا مرضهم الذي تزيله هذه الأبوال، فأمرهم لذلك، ولا يوجد هذا في زماننا، حتى إذا فرضنا أن أحدا عرف مرض شخص بقوة العلم، وعرف أنه لا يزيله إلا بتناول المحرم، يباح له حينئذ أن يتناوله، كما يباح شرب الخمر عند العطش الشديد، وتناول الميتة عند المخمصة، وأيضا التمسك بعموم قوله صلى الله عليه وسلم: (استنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه) . أولى لأنه ظاهر في تناول جميع الأبوال، فيجب اجتنابها لهذا الوعيد۔"

(باب ابواب الابل، ص:154، ج:3، ط:دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں