بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن تراویح اور تراویح میں دیکھ کر قرآن پڑھنا


سوال

اس سال رمضان میں ایک بڑے طبقے نے امام کعبہ کے ساتھ اپنے ڈرائنگ روم میں تراویح اور عید کی نمازیں ادا کی ۔ یعنی وہ امام رہے اور پاکستان میں ڈرائنگ روم میں موبائل پر انٹرنیٹ کے ذریعے یہ مقتدی بنے۔کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اس کے لیے دلیل مسجدوں کا بند ہونا اور وبا کا ہونا بتایا گیا،  ہمارے رشتہ داروں میں گھروں کے اندر خواتین اور مردوں کے لیے نماز تراویح کا اہتمام اس طرح کیا گیا کہ قرآن پاک کی تلاوت ہاتھوں میں لے کر کی  گئی، یعنی دیکھ کر،  اس کے لیے پہلے سے آیتیں تقسیم کر لی جاتی تھیں یعنی ایک نے امام کی جگہ پر آ کر دو رکوع دیکھ کر تلاوت کی پھر وہ پیچھے ہو گیا اور دوسرے نے امام کی جگہ پر آکر بقیہ تلاوت کی، پھر تیسرے نے کی،خواتین امام کی جگہ پر نہیں آئیں، لیکن طریقہ یہی استعمال کیا گیا اور پھر ختم تراویح بھی باقاعدہ کی  گئی،کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اور اس میں بھی کیا ٹرینڈ بنانا درست ہے کہ گھر کے لوگوں کے علاوہ محلے سے بھی لوگ جمع کیے گئے؟اور اس طرح بھی کہ خواتین اور مردوں میں حافظین بھی موجود ہوں اور کچھ ایسے  جنہیں پورا نہیں تو اچھا خاصہ قرآن یاد ہو، ہر صورت میں اس کے بارے میں آگاہ کیجیے گا!

جواب

امام کی اقتدا درست ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ امام مقتدی سے آگے کھڑا ہو،  نیز امام اور مقتدی جس جگہ ہوں وہ ایک مکان کے حکم میں ہو، اگر مقتدی ایک ہو تو وہ امام کے دائیں طرف چار انگلیوں کے بقدر پیچھے ہو کر کھڑا ہو، اور اگر مقتدی زیادہ ہوں تو وہ امام سے پچھلی صف میں کھڑے ہوں۔

البتہ اگر جگہ کی تنگی، بارش یا دیگر عذر کی وجہ سے امام کے برابری میں صرف چار انگل پیچھے صف بنالیں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

 نیز صفوں کی درستی اور انہیں پُر کرنا شریعت کے احکامات میں سے ایک اہم حکم اور نماز کا حصہ ہے، نبی کریم ﷺنے صفوں کے درست کرنے کو نماز کی تکمیل قرار دیاہے، اور اگلی صف میں جگہ موجود ہوتے ہوئے پچھلی صف میں کھڑے ہونے سے منع فرمایاہے، لہذا  شرعی مسجد کی حدود میں بھی امام کے بعد ایک صف خالی چھوڑ کر کھڑا ہونا مکروہ ہے، اسی طرح اگر دو صفوں کے درمیان ایک صف خالی چھوڑ کر صف بنائی جائے تو یہ بھی مکروہ ہے، تاہم شرعی مسجد کے احاطے میں اس طرح نماز ادا کرنے سے نماز ہوجائے گی۔ اور مسجدِ شرعی سے باہر اگر کوئی امام کی اقتدا کرتاہے تو اگر امام اور مقتدی کے درمیان یا دو صفوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہو، جس میں دو صفیں بنائی جاسکتی ہوں یا راستہ ہو جس سے گاڑی گزر سکتی ہو، تو صفوں میں اتصال نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے والوں کی اقتدا درست نہیں ہوگی۔

نماز کی جماعت درست ہونے کے لیے امام اور مقتدی کی جگہ کا حقیقتاً یا حکماً متحد ہونا ضروری ہے، امام کی اقتدا  میں گھر سے آن لائن نماز پڑھنے کا شریعت میں تصور نہیں ہے، اور ایسے مقتدیوں کی نماز بھی نہیں ہوگی۔

اور اسی طرح احناف کے نزدیک نماز میں قرآنِ مجید دیکھ  کر پڑھنا یا دیکھ کر سماعت کرنا جائز نہیں، تراویح میں دیکھ  کر قرآنِ مجید پڑھنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اسی طرح دیکھ  کر  سماعت کرنا شرعاً درست نہیں ہے، اگر اس حالت میں سامع نے لقمہ دیا اور امام نے قبول کرلیا تو امام و مقتدی سب کی نماز فاسد ہو جائے گی۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں تراویح اور نماز عید وغیرہ کسی کی بھی ادا نہیں ہوئی، سابقہ کوتاہی پر استغفار کریں، اور آئندہ اس طرزِ عمل سے اجتناب کریں۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ (4 / 73):

"(قوله: وقراءته من مصحف) أي يفسدها عند أبي حنيفة، و قالا: هي تامة؛ لأنها عبادة انضافت إلى عبادة إلا أنه يكره؛ لأنه تشبه بصنيع أهل الكتاب، و لأبي حنيفة وجهان: أحدهما أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير، الثاني أنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره، وعلى هذا الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده، وعلى الأول يفترقان، و صحح المصنف في الكافي الثاني وقال: إنها تفسد بكل حال تبعًا لما صححه شمس الأئمة السرخسي، و ربما يستدل لأبي حنيفة كما ذكره العلامة الحلبي بما أخرجه ابن أبي داود عن ابن عباس قال: نهانا أمير المؤمنين أن نؤم الناس في المصحف؛ فإن الأصل كون النهي يقتضي الفساد، و أراد بالمصحف المكتوب فيه شيء من القرآن، فإن الصحيح أنه لو قرأ من المحراب فسدت، كما هو مقتضى الوجه الثاني، كما صرحوا به، و أطلقه فشمل القليل والكثير و ما إذا لم يكن حافظًا أو حافظًا للقرآن، و هو إطلاق الجامع الصغير".

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 623):

"( وقراءته من مصحف ) أي ما فيه قرآن ( مطلقًا)؛ لأنه تعلم إلا إذا كان حافظًا لما قرأه وقرأ بلا حمل، و قيل: لاتفسد إلا بآية".

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (2 / 77):

"وإذا قرأ المصلي من المصحف فسدت صلاته، وهذا قول أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد: لاتفسد، حجتهما: أن عائشة أمرت ذكوان بإمامتها وكان ذكوان يقرأ من المصحف، ولأبي حنيفة وجهان: أحدها: إن حمل المصحف وتقليب الأوراق والنظر فيه والتفكر ليفهم ما فيه فيقرأ عمل كثير، والعمل الكثير مفسد لما نبيّن بعد هذا، وعلى هذا الطريق يفرق الحال بينهما إذا كان المصحف في يديه أو بين يديه أو قرأ من المحراب، والله أعلم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 586):

"(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد وبيت في الأصح قنية، ولا حكما عند اتصال الصفوف؛ ولو اقتدى من سطح داره المتصلة بالمسجد لم يجز لاختلاف المكان درر وبحر وغيرهما وأقره المصنف لكن تعقبه في الشرنبلالية ونقل عن البرهان وغيره أن الصحيح اعتبار الاشتباه فقط. قلت: وفي الأشباه وزواهر الجواهر ومفتاح السعادة أنه الأصح. وفي النهر عن الزاد أنه اختيار جماعة من المتأخرين.

(قوله: ولم يختلف المكان) أي مكان المقتدي والإمام. وحاصله أنه اشترط عدم الاشتباه وعدم اختلاف المكان، ومفهومه أنه لو وجد كل من الاشتباه والاختلاف أو أحدهما فقط منع الاقتداء، لكن المنع باختلاف المكان فقط فيه كلام يأتي (قوله: كمسجد وبيت) فإن المسجد مكان واحد، ولذا لم يعتبر فيه الفصل بالخلاء إلا إذا كان المسجد كبيرا جدا وكذا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لا حكم الصحراء كما قدمناه عن القهستاني. وفي التتارخانية عن المحيط: ذكر السرخسي إذا لم يكن على الحائط العريض باب ولا ثقب؛ ففي رواية يمنع لاشتباه حال الإمام، وفي رواية لا يمنع وعليه عمل الناس بمكة، فإن الإمام يقف في مقام إبراهيم، وبعض الناس وراء الكعبة من الجانب الآخر وبينهم وبين الإمام الكعبة ولم يمنعهم أحد من ذلك. اهـ".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق   میں ہے:

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف، ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك، وينبغي أن يكملوا ما يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه، وهلمّ جرًّا، وإذا استوى جانبا الإمام فإنه يقوم الجائي عن يمينه، وإن ترجح اليمين فإنه يقوم عن يساره، وإن وجد في الصف فرجه سدّها، وإلا فينتظر حتى يجيء آخر كما قدمناه، وفي فتح القدير: وروى أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنه قال: أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيديكم ( ( ( بأيدي ) ) )  إخوانكم لاتذروا فرجات للشيطان، من وصل صفًّا وصله الله، ومن قطع صفًّا قطعه الله. وروى البزار بإسناد حسن عنه من سدّ فرجةً في الصفّ غفر له. وفي أبي داود عنه: قال: خياركم ألينكم مناكب في الصلاة".( 1 / 375)

وفیہ ایضا :

"وذكر الإسبيجابي أنه لو كان معه رجلان فإمامهم بالخيار إن شاء تقدم، وإن شاء أقام فيما بينهما، ولو كانوا جماعةً فينبغي للإمام أن يتقدم، ولو لم يتقدم إلا أنه أقام على ميمنة الصف أو على ميسرته أو قام في وسط الصف فإنه يجوز ويكره". (1/ 374)

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144206200875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں