بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن تدریس کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ وائرس کی وجہ سے موجودہ صورت حال میں بچوں کو آن لائن تعلیم دینا جائز ہے یا نہیں ؟اگر جائز ہے تو کن شرائط کے ساتھ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعت مطہرہ میں کسی  بھی  جان دار  چیز کی تصویر کشی   کرنا حرام ہے ، خواہ وہ  تصویر کشی کسی ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعہ سے ہو یا غیر ڈیجیٹل کیمرے سے ، بہر صورت ناجائز اور حرام ہے، ویب کیمرے کا استعمال بھی شرعاً تصویر کشی کے حکم میں ہے۔اس لیے آن لائن  تعلیم وتد ریس کےلیے  یہ بنیادی شرط ہے کہ تعلیم  محض صوتی یعنی صرف آواز ( آڈیو کال )  کے ذریعہ ہو ،ایک  دوسرے کی تصویر  نظر نہ آئے یعنی تعلیم کیمرے(ویڈیوکال ،لائیو ویڈیووغیرہ )کے ذریعہ  نہ  ہو ،اگر دوران تدریس  کیمرے کا ستعمال ہو تو  کیمرے کا رخ ( فوکس )غیرجاندار  چیز ( بورڈ ، کتاب وغیرہ )   پر ہو ،کیمرے کے سامنے  استاد یا طالب علم/طلبہ کا آنا جائز نہیں ہے ۔(۱)

               مرد اورعورت کےلحاظ   سے آن لائن تعلیم وتدریس کی ممکنہ طور پر چار صورتیں   بنتی ہیں :

(1)مرد کا لڑکوں کو پڑھانا ۔

(2)مرد کا لڑکیوں کو پڑھانا۔

(3)عورت کا لڑکیوں کو پڑھانا۔

(4)عورت کا لڑکوں کو پڑھانا۔

1: مرد  کا  لڑکوں کو پڑھانے کا حکم:

             مرد کا لڑکوں کو پڑھانا درست اور جائز   ہے ۔(۲)

2:مر د کا بچیوں یا لڑکیوں کو پڑھانے کاحکم:

اِس صورت کی  دوحالتیں ہیں :

۱۔پڑھنے والی   چھوٹی بچیاں ہوں ( یعنی قریب البلوغ مراہقہ نہ ہوں  جس کی عمر تقریباً نو سال سے کم ہو )۔

 ۲۔پڑھنے والی  قریب البلوغ یا بالغ لڑکیاں ہوں ۔

پہلی حالت   کا حکم یہ ہے کہ مرد استاذ  کا چھوٹی بچیوں کو پڑھانا جائز اور درست ہے، خواہ آن لائن تدریس ہو یا براہ راست یعنی آمنے سامنے ہوں۔(۳)

دوسری حالت کا حکم یہ ہے کہ    اگر آن لائن پڑھنے والی صرف ایک طالبہ ہے تو اگرچہ یہ صورت مکمل طور پر خلوت کی نہیں ہے، لیکن حکماً خلوت ہے ، فتنہ میں واقع ہونے کا اندیشہ ہے؛ لہذا ایک وقت میں صرف ایک طالبہ کو آن لائن پڑھانا فتنہ کے احتمال کی وجہ سے  درست نہیں ہوگا، ہاں اگر اس ایک طالبہ کے ساتھ دوران درس اس طالبہ کا کوئی محرم مرد یا کوئی خاتون وغیرہ موجود ہو تو یہ صورت جائز ہوگی۔(۴)

اور اگر آن لائن تدریس کے دوران دو یا اس سے زیادہ طالبات ہوں تو ان طالبات کو مرد استاذ کا پڑھانا (حجاب وستر اور تعلیم کی) دیگر شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے جائز ہوگا، نیز جائز صورتوں میں بھی دورانِ درس  غیر ضروری (یعنی  سبق سے ہٹ کر)  باتوں سے قطعی طور پر  اجتنا ب ہو ۔(۵)

3:عورت کا لڑکیوں کو پڑھانے کا حکم:

عورت کا لڑ کیوں کوآن لائن  پڑھانا اُس وقت  جائز ہے جب درج ذیل شرائط کا لحاظ  رکھا جائے، بصورتِ دیگر جائز نہ ہوگا .

1- اگر استانی  شادی شدہ ہے تو  شوہر کی اجازت سے تعلیم دے ، اگر شوہر کی اجازت نہ ہوتو  تعلیم کی اجازت نہ ہوگی ۔(۶)

2-  صرف مستورات  اور لڑکیوں کو تعلیم دے ،غیر محرم مردوں یا قریب البلوغ  لڑکوں  کو پردہ کے بغیر   تعلیم نہ دے ۔(۷)

3- لڑکیوں کی تعلیمی کیفیت  کے سلسلے  میں غیر محرم  مردوں یا قریب البلوغ  لڑکوں  سے رابطہ  اور بات  چیت  نہ کی جائے ۔ اگر رابطہ کرنا واقعی ضروری ہو تو پردہ کے ساتھ صرف  بقدر ضرورت بات کی جائے۔(۸)

4:عورت کا بچوں یا لڑکوں کو پڑھانے کاحکم:

1-عورت کا ناسمجھ  بچوں کو پڑھانا جائز ہے   ۔(۹)

2- عورت کا بالغ یا  قریب البلوغ لڑکوں کو یا اسی طرح ایسے سمجھ دار لڑکوں کو جن کی عمر دس سال تک پہنچ گئی ہوپردہ کے بغیر  پڑھانا جائز نہیں ہے۔(۱۰)

نیز یہ واضح رہے کہ دینی تعلیم کے جو مقاصد ہیں وہ آن لائن تعلیم دینے سے حاصل نہیں ہوں گے،  کیوں کہ آن لائن سے معلومات تو منتقل ہوجائیں گی، لیکن دینی علم کا  استفادہ نہیں ہوگا۔دینی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ شاگرد استاد کے سامنے رہیں اور استاد کی عادت،اخلاق رفتار ،گفتار اور انداز و کیفیت کو دیکھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزاریں ،اس لیے صحابہ کرام کو جو فضیلت حاصل ہے وہ دنیا میں قیامت تک کسی اور کو حاصل نہیں ہے ،اس کے بعد تابعین،تبع التابعین وغیرہ کی فضیلت کا معیار بھی یہی ہے،اس لیے دینی تعلیم حاصل کرنے میں صحبت،ملازمت اور خدمت کا جو اثر ہوتا ہے وہ آن لائن سے حاصل نہیں ہوگا۔

حوالہ جات:

(۱)وفی الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:

"والتصوير...[لغۃً]:صنع الصورة التي هي تمثال الشيء، أي: ما يماثل الشيء ويحكي هيئته التي هو عليها، سواء كانت الصورة مجسمة أو غير مجسمة، أو كما يعبر بعض الفقهاء: ذات ظل أو غير ذات ظل.

والمراد بالصورة المجسمة أو ذات الظل ما كانت ذات ثلاثة أبعاد، أي لها حجم، بحيث تكون أعضاؤها نافرة يمكن أن تتميز باللمس، بالإضافة إلى تميزها بالنظر.

وأما غير المجسمة، أو التي ليس لها ظل، فهي المسطحة، أو ذات البعدين، وتتميز أعضاؤها بالنظر فقط، دون اللمس؛ لأنها ليست نافرة، كالصور التي على الورق، أو القماش، أو السطوح الملساء.

والتصوير والصورة في اصطلاح الفقهاء يجري على ما جرى عليه في اللغة."

(تصویر،التعریف ،ج:۱۲،ص:۹۳،ط:وزارۃ الاوقاف )

وفی بدائع الصنائع  للکاسانی ؒ:

" فأما صورة ما لا حياة له كالشجر ونحو ذلك فلايوجب الكراهة؛ لأن عبدة الصور لايعبدون تمثال ما ليس بذي روح، فلا يحصل التشبه بهم، وكذا النهي إنما جاء عن تصوير ذي الروح لما روي عن علي - رضي الله عنه - أنه قال: من صور تمثال ذي الروح كلف يوم القيامة أن ينفخ فيه الروح، وليس بنافخ.........الخ"

(کتاب الصلاۃ ،فصل شرائط ارکان الصلاۃ ،ج:۱،ص:۱۱۵،ط: دار الكتب العلمية)

(۲)  وفی الدرمع ردالمحتار لابن عابدین ؒ:

"(وينظر الرجل من الرجل) ومن غلام بلغ حد الشهوة مجتبى ولو أمرد صبيح الوجه۔۔۔۔۔۔(سوى ما بين سرته إلى ما تحت ركبته) فالركبة عورة لا السرة۔۔۔۔الخ"

(کتاب الحظر والاباحۃ ،فصل فی النظر والمس ،ج:۶،ص:۳۶۴،ط:سعید)

(۳) وفي الدر مع رد المحتار لابن عابدين :

"وفي السراج: لا عورة للصغير جدا، ثم ما دام لم يشته فقبل ودبر ثم تغلظ إلى عشر سنين، ثم كبالغ.

(قوله: لا عورة للصغير جدا) وكذا الصغيرة كما في السراج، فيباح النظر والمس كما في المعراج. قال ح: وفسره شيخنا بابن أربع فما دونها، ولم أدر لمن عزاه. اهـ. أقول: قد يؤخذ مما في جنائز الشرنبلالية ونصه: وإذا لم يبلغ الصغير والصغيرة حد الشهوة يغسلهما الرجال والنساء، وقدره في الأصل بأن يكون قبل أن يتكلم. اهـ."

(كتاب الصلاة ،باب شروط الصلاة ،مطلب في سترالعورة ،ج:۱ ،ص:۴۰۷ ط:سعيد)

(۴)  حدیث شریف میں ہے:

"ألا لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان۔۔۔"

(سنن  الترمذی  لمحمد بن عیسی الترمذی ،ج:۴،ص:۴۶۵ ،ط:مصطفی البابی الحلبی)

وفی الفتاوی البزازیۃ :

"قال علماؤنا رحمهم الله يكره استئجار الحرة أو الأمة للخدمة لأنه يؤدي إلى الخلوة بالأجنبية وأنه منهى عنه۔۔۔الخ"

(ج:۳،ص:۵۰،ط:الشاملۃ )

(۵) وفی مرقاۃ المفاتیح شرح  مشکوۃ المصابیح  للملا علی القاری ؒ:

"۔۔۔۔من وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه ألا وإن لكل ملك حمى ألا وإن حمى الله محارمه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(يوشك) : أي: يقرب ويسرع (أن يرتع فيه) : أي: في نفس الحمى بناء على تساهله في المحافظة، وجراءته على الرعي، وعدم الفرق بينه وبين غيره، فيستحق عقاب الملك."

(کتاب البیوع ،باب الکسب وطلب الحلال ،ج: ۵، ص:۱۸۹۲،ط:دار الفکر)

(۶) وفی البحر الرائق لابن نجیم ؒ:

"فإن أرادت أن تخرج إلى مجلس العلم بغير رضا الزوج ليس لها ذلك۔"

(کتاب الطلاق ،باب النفقۃ ،ج: ۴، ص: ۲۱۲،ط:دار الکتاب الاسلامی)

وفی رد المحتار لابن عابدینؒ:

"في التتارخانية أن للزوج منعها عما يوجب خللا في حقه."

(کتاب الطلاق ،باب النفقۃ ،مطلب فی  مسکن الزوجۃ ،ج:۳،ص:۶۰۰،ط:سعید)

(۷) وفی الفتاوی الہندیۃ  لمولانا نظام وجماعتہ ؒ:

" والغلام الذي بلغ حد الشهوة كالبالغ، كذا في الغياثية."

(کتاب  الکراہیۃ ،الباب الثامن فیمایحل للرجل النظر الیہ ومالایحل  لہ ،ج:۵،ص:۳۳۰ ،ط:ماجدیۃ)

وفي الدر مع رد المحتار لابن عابدين:

"وصوتها على الراجح۔۔۔۔۔الخ

(قوله: وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام: «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة."

(كتاب الصلاة ،باب شروط الصلاة ،مطلب في سترالعورة ،ج:۱ ،ص:۴۰۶ ،ط:سعيد)

(۸) وفی رد المحتار  لابن عابدین ؒ:

" ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة."

(كتاب الصلاة ،باب شروط الصلاة ،مطلب في سترالعورة ،ج:۱ ،ص:۴۰۶ ،ط:سعيد)

(۹) وفي الدر مع رد المحتار لابن عابدين :

"وفي السراج: لا عورة للصغير جدا، ثم ما دام لم يشته فقبل ودبر ثم تغلظ إلى عشر سنين، ثم كبالغ.

(قوله: لا عورة للصغير جدا) وكذا الصغيرة كما في السراج، فيباح النظر والمس كما في المعراج. قال ح: وفسره شيخنا بابن أربع فما دونها، ولم أدر لمن عزاه. اهـ. أقول: قد يؤخذ مما في جنائز الشرنبلالية ونصه: وإذا لم يبلغ الصغير والصغيرة حد الشهوة يغسلهما الرجال والنساء، وقدره في الأصل بأن يكون قبل أن يتكلم. اهـ.اه

(كتاب الصلاة ،باب شروط الصلاة ،مطلب في سترالعورة ،ج:۱،ص: ۴۰۷ط:سعيد)

(۱۰) وفی البحر الرائق  لابن نجیم ؒ:

" وأما أذان المرأة فلأنها منهية عن رفع صوتها؛ لأنه يؤدي إلى الفتنة".

(کتاب الصلاۃ ،باب الاذان ،ج:۱، ص: ۲۷۷،ط:دار الکتاب  الاسلامی )

وفی المبسوط للسرخسی ؒ:

" ويرفع صوته بالأذان والمرأة ممنوعة من ذلك لخوف الفتنة".

( کتاب الصلاۃ ،باب الاذان ،اذان المرأۃ،ج: ۱،ص:۱۳۳،ط:دار المعرفۃ )

احسن الفتاویٰ میں ہے:

دس سال کی عمر میں تفریق مضاجع کا حکم فرمایا گیا ہے، اس حکم کی علت احتمال شہوت ہے اور اس عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ضرب کا حکم فرمانا بھی اس امر کا مشعر ہےکہ اس عمر کے بچے بمنزلہ بالغین ہیں۔

قال العلامہ علی القاری رحمہ اللہ تعالیٰ : لانھم بلغوا او قاربوا البلوغ۔(مرقاة المفاتيح ص۔۱۱۵، ۔)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں