بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن رشتے کرانے پر اجرت لینے کا حکم


سوال

 میں آن لائن رشتے اور  شادیاں کرواتا ہوں، جیسے کسی ڈاکٹر کے لیے ڈاکٹر، اور  انجینئر کے لیے انجینئر کے رشتے کرواتا ہوں، اور جو بھی رشتے کے لیے  آن لائن واٹس ایپ پرمیسج کرتا ہے، اس سے پہلے جوائننگ فیس پانچ ہزار لے کر رشتے کے پروپوزلس (proposals) دکھاتا ہوں، وہ لڑکی کی طرف سے ہو یا لڑکے کی طرف سے، دونوں سے پانچ  ہزار لیتا ہوں اور پسند کرنے کے بعد ان کو ایک دوسرے کے نمبر دیتا ہوں،  وہ آپس میں میٹنگ فکس کرکے ایک دوسرے سے مل کر ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور رشتہ فکس ہونے کے بعدپانچ ہزار سے اسی ہزار تک بعد میں فیس وصول کرتا ہوں۔

براہِ مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ یہ جو میں کام کر رہا ہوں، پیسے لے رہا ہوں، وہ حلال ہیں  یا حرام، جائز ہیں  یا نا جائز؟ 

جواب

اس طرح کے عمل پر اجرت کے جواز اورعدم جواز کا حکم یہ ہے کہ اگر باقاعدہ معاہدہ ہو اور اجرت متعین ہو اور رشتہ کرانے والا اس سلسلے میں بھاگ دوڑ بھی کرے تو اس کے لیے اجرت کا لینا جائز ہوگا، مگر اسلامی اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ اس طرح کے مبارک اورنیک عمل کو بطور پیشہ نہیں،بلکہ بطورعبادت انجام دینا چاہیے، کیونکہ کسی کامناسب رشتہ کرادینا اس کی اور معاشرے کی ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کر دینا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ پاک ہے، جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہر قدم پر ستّر نیکیاں عطا فرماتا ہے۔اگر کوئی اس پر طےکردہ شرائط کے مطابق اجرت لیتا ہے تو فقہی لحاظ سے اس کے لیے اجرت لیناجائز ہوگا مگر اجرت لینا نیکی کے اجر کو کم کردیتا ہے اور اگر خلوص نیت نہ ہو تو پھر سرے سے ثواب ہی نہیں ملتا ۔

نیز ملحوظ رہے کہ جاندار کی تصویر بنانا، دیکھنا اور دوسروں کو بھیجنا جائز نہیں ہے، لہٰذا بذریعہ واٹس ایپ رشتے کے امیدوار کی تصاویر بھیجنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

حديث شريف ميں ہے:

" حدثنا جعفر قال: نا محمد قال: نا عبد الرحيم بن زيد العمي، عن أبيه، عن الحسن، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من مشى في ‌حاجة ‌أخيه المسلم كتب الله له بكل خطوة يخطوها ‌سبعين حسنة."

(المعجم الأوسط، باب الجيم، ج:3، ص:344، ط:دار الحرمين)

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «فتاوى الفضلي» : الدلالة في النكاح لا يستوجب الأجر وبه كان يفتي رحمه الله، وغيره من مشايخ زمانه كانوا يفتون بوجوب أجر المثل لهما، لأن ‌معظم ‌الأمر ‌في ‌النكاح يقوم بها، ولها سعي في إصلاح مقدمات النكاح، فيستوجب أجر المثل بمنزلة الدلال في باب البيع، وبه يفتى."

(كتاب الإجارات،الفصل الرابع والثلاثون: في المتفرقات،7/ 644،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في التتارخانية: ‌وفي ‌الدلال ‌والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں