1:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ آج کل آن لائن کاروبار کا دور ہے،بالخصوص اشتہار و تصاویر کے ذریعے آن لائن کام کرنے کا جو رواج چلا ہوا اس کی جائز صورت کیا ہوسکتی ہے؟اِس سلسلہ میں بسااوقات(ری سیلنگ کی غرض سے) ایک گروپ بنایا جاتا ہے، اس میں چیزوں کی تصاویر لگا کر مختلف افراد ”ری سیلر“ بنائےجاتے ہیں،لوگ اس گروپ کو جوائن کرتے اور ری سیلر بن کراپنا نفع لگا کر تصاویر دکھا کر آرڈرز لیتے ہیں، اور جس کی دکان ہو اس کو آگے دیتے ہیں،اور بعض جگہوں پر ری سیلر یعنی جو انسان تصاویر دکھا کر کام کرتا ہے اس کے قبضے میں کچھ بھی نہیں ہوتا اور وہ آگے ری سیلر بن کر کاروبار کر رہا ہوتا ہے۔اس طرح کاروبار کرنے کا کیا حکم ہے؟
2: اسی طرح ایک شخص جس کے پاس مال موجود ہے، وہ اُس کی تصاویر کسی کو بھیجتاہے اور کہتا ہے میں تم کو اپنے مال پر وکیل بناتا ہوں، تم تصاویر دکھا اتنے فیصد نفع لگا کر میرا مال بیچو اور وہ نفع تمہارا ہو گا، مزید اس صورت میں رقم کا فکس کرنا ضروری ہے یا بغیر فکس کیے بھی اجازت دے سکتا ہے؟
3: ایک انسان خود ری سیلر ہے، اورتصاویر کے ذریعے آڈر لیتا ہے اور پھر وہ خود ایک ری سیلنگ کا اپنا ذاتی گروپ بنا کر مزید اپنے ری سیلر بناتا ہے ، اور اُن سے آڈر لینے کے بعد وہ مال قبضے میں لیتا ہے اور اپنے ری سیلر کو مال بیچنے کی اجازت دیتا ہے، گویا ایک ری سیلر آگے مزید ری سیلنگ کا کام کرےتو اس صورت کا کیا حکم ہے؟
اولاً اصولی طور پریہ بات ذہن نشین رہے کہ آج کل آن لائن کاروبار کی کوئی بھی ایسی صورت جس میں "مبیع" (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہ ہو اور وہ کسٹمر (مشتری)کو محض تصویر یا اشتہار دکھلاکر سامان فروخت کرتا ہے (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ "فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی"، وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی دکان یا اسٹوروغیرہ سے خرید کر اپنے خریدار کو دیتا ہے تو یہ صورت شریعت کی رُو سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت یا قبضہ میں ہونا شرعاً ضروری ہے۔
1:لہذا بصورتِ مسئولہ ” آن لائن ری سیلنگ گروپ“ جس میں اکثر و بیشتر فروخت کی جانے والی اشیاء کے اشتہارات اور تصاویر دکھا کر لین دین ہوتا ہے، اُس میں اگر کوئی ”ری سیلر“ اپنے کسٹمر سے خریدوفروخت کا سودا کرے دراں حالیکہ وہ چیز اُس کے پاس موجود ہی نہ ہو، اور سودا مکمل کرنے کے بعد وہ چیز خرید کر اُسے بھیجے تو شرعاً یہ صورت جائز نہیں ہے۔ اِس کی جائز صورتوں میں پہلی صورت یہ کہ وہ ”ری سیلر“ یا تو خود پہلے سامان خرید کر اپنے قبضے میں لے لے اور پھر فروخت کرے ۔یا دوسری صورت جواز کی یہ ہے کہ اپنے کسٹمر سے لین دین کا سودا مکمل اور حتمی نہ کرے بلکہ اُس سے ”وعدہ بیع“ کیاجائے،یعنی اپنے کسٹمر سےیہ کہہ دے کہ میں یہ چیز اتنی قیمت پر دوں گا، آپ کو لینا ہے تو بتادیں، پھر اس کے بعد سامان خرید کر قبضہ کرنے کے بعد مشتری (کسٹمر)تک پہنچا دے تو یہ درست ہے۔اسی” آن لائن ری سیلنگ“ کے کام میں جواز کی تیسری صورت یہ بھی بن سکتی ہے کہ”ری سیلر“ اپنا منافع بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کے ذریعہ حاصل کرے۔ یعنی ”ری سیلر“ جس کمپنی/دکاندار کی اشیاء آگے فروخت کررہا ہے، اُس سےکمیشن (اُجرت) پر معاملہ طے کر لے، پھر اِس میں ایک صورت یہ ہے کہ ”ری سیلر“ بطور "اجیر خاص" کام کرے، یعنی کام کے لیے خاص وقت و مدت طے کرلی جائے، اور ”ری سیلر“ کو اُسی کے حساب سے تنخواہ دی جائے، یا دوسری صورت یہ ہے کہ ”ری سیلر“ جتنی اشیاء فروخت کروائے اُس کی تعداد کے اعتبار سے اُن میں سے ہرچیز کا کمیشن طے کرلیا جائے، پھر فروخت کرانے کے بعد مقررہ کمیشن کی رقم وصول کرلے۔ لیکن اِس صورت میں ایک تو کمیشن کی مقدار میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو بلکہ رقم خاص اور متعین ہونی چاہیے ،اور دوسرا ”ری سیلر“ کے لیے کمیشن کے علاوہ مبیع کی قیمت میں اپنی طرف سے اضافہ کر کے منافع کمانا جائز نہیں ہوگا۔
2: وکیل(بروکر) کے لیے رقم (کمیشن) کا فکس کرنا ضروری ہے،لہذا وکیل کے لیے متوقع منافع کو کمیشن کے طور پر طے کرنا جائز نہیں ہے، مثلامؤکل کوئی چیز وکیل کو دے کر یہ کہے کہ اِس کی قیمت کم از کم 10000 روپے ہے، اور میں تم سے 10000 روپے لوں گا ، اب 10000 روپےسے اوپر جتنا منافع لگاکر یہ چیز تم فروخت کرو وہ تمہارا کمیشن ہوگا، یہ صورت کمیشن کی رقم متعین نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے،نیز اِس صورت میں کمیشن کی رقم مجہول ہونے کے ساتھ ساتھ مفضی الی النزاع بھی بن سکتی ہے۔ البتہ اگر مبیع کی کُل قیمتِ فروخت میں فیصدکے حساب سے کمیشن طے کیاجائے تو بھی جائز ہوگا، مثلاً معاملہ اس طور کیا جائے کہ مبیع جتنی قیمت میں بھی فروخت ہو اُس کی کُل قیمت فروخت کا 10٪ بطورِ کمیشن وکیل کو ملے گا تو یہ جائز ہے۔ اِسی طرح اگر فروخت کردہ اشیاء کی تعداد و مقدار کے اعتبار سے وکیل کے لیے کمیشن طے کیا جائے تو یہ بھی جائز ہے، اِس صورت کی تفصیل ماقبل میں گزر چکی ہے۔
3:ایک ری سیلر کا آگے ذاتی طور پر ری سیلنگ کا کام کرنا اور دوسروں کو ری سیلر بنا کرسامان وغیرہ دینا درست ہے، مگر اُس کے لیے وہی شرائط ہیں جو اوپر ذکر کی گئی ہیں، یعنی اگر خرید و فروخت کا معاملہ کیا جائے تو مبیع کا قبضہ میں ہونا ضروری ہے،بغیر قبضہ کے حتمی سودا کرنا جائز نہیں ہے،البتہ وعدہ بیع اورکمیشن والی صورت ملکیت کے بغیر بھی جائز ہے، جس کی شرائط و تفصیلات اوپر درج ہیں۔
مرقاة المفاتیح میں ہے :
"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه، وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (لا تبع ما ليس عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."
(كتاب البيوع، باب المنهي عنهامن البيوع، الفصل الثاني، ج: 6، ص: 78، ط: رشيدية)
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:
"وأما نهيه عن بيع ما لم يقبض يعني في المنقولات، وأما نهيه عن بيع ما ليس عنده فهو أن يبيع ما ليس في ملكه، ثم ملكه بوجه من الوجوه فإنه لا يجوز إلا في السلم فإنه رخص فيه."
(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، ج: 1، ص: 241، ط: قديمي)
فتاوی شامی میں ہے:
"إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح."
(کتاب البیوع، باب بیع الفاسد،5/ 58، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(لا) يصح اتفاقا...(بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما. وفي الرد: (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."
(باب المرابحة و التولية، فصل في التصرف في المبيع و الثمن قبل القبض و الزيادة، ج: 5، ص: 148،147، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن ذكرا البيع من غير شرط ثم ذكرا الشرط على وجه المواعدة جاز البيع ويلزم الوفاء بالوعد كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب البيوع، الباب العشرون، ج:3، ص:209، ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(كتاب الإجارة، مطلب في أجرة الدلال، ج: 6، ص: 63، ط: سعید)
فقط والله تعالى اعلم
فتوی نمبر : 144609102293
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن