آن لائن قرآن اکیڈمی کھولنا جائز ہے ,یہ تو سمجھ میں آ گیا لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا اکیڈمی میں رکھے ٹیچرز کو تنخواہ سٹوڈنٹ کے حساب سے دے سکتے ہیں ؟کیا مطلب ؟ایک ٹیچر کو کہا جائے کہ فی سٹوڈنٹ آپ کو اتنے پیسے ملیں گے آپ جتنے سٹوڈنٹ پڑھانا چاہیں پڑھا لیں لیکن تنخواہ آپ کو فی کس کے حساب سے ملے گی تو ایک ماہ وہ دس بچے پڑھاتا ہے اسے اس حساب سے مہینے کے آخر میں پیسے دے دیے جاتے ہیں اور اگلے ماہ وہ 12 بچے پڑھاتا ہے تو اس کو اس حساب سے پیسے دیے جاتے ہیں کیا یہ سب جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں فی کس کے حساب سے اجرت مقرر کر کے آن لائن قرآ ن پڑھانا جائز ہے اور اس کی اجرت حلال ہوگی، البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس تعلیم و تعلم میں شریعت کے دیگر شرائط و احکامات کا خیال رکھا جائے مثلاً کسی نامحرم کو آن لائن قرآن نہ پڑھائے کیونکہ اس طرح کسی نا محرم سے آن لائن رابطہ کرنا گو کہ قرآن پڑھانے کے لیے کیوں نہ ہو فتنہ میں مبتلاء ہونے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسی طرح جان دار کی تصویر اور ویڈیو کا استعمال نہ ہو؛ کیوں کہ تصویر اور ویڈیو حرام ہیں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"ومشايخ بلخ جوزوا الاستئجار على تعليم القرآن إذا ضرب لذلك مدة وأفتوا بوجوب المسمى وعند عدم الاستئجار أصلا أو عند الاستئجار بدون المدة أفتوا بوجوب أجر المثل. كذا في المحيط."
(کتاب الاجارۃ،ج:۴،ص:۴۴۸،دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402100259
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن