بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن قرآن کی تعلیم کی فیس لینا اور دیگر فرائض چھوڑنا


سوال

آج کل یہ جو آن لائن قرآن پڑھائے جانے کے طریقے پر قاری حضرات لاکھوں روپے کما رہے ہیں اور یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ان سے نماز  اور کھانا بھی چھوٹ رہا ہے، لیکن یہ اس کام میں مصروف ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمائیں، کیا یہ شریعت میں جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے لیے  بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ کسی مستند قاری صاحب سے بالمشافہہ قرآن کی تعلیم حاصل کی جائے یعنی آن لائن کے بجائے کسی مستند قاری معلّم کے سامنے بیٹھ کر پڑھا جائے،اس طریقہ  میں برکت بھی ہے اور یہ تعلیمی افادہ اور استفادہ کے لیے موزوں بھی ہے،اس لیے اس متوارث اور روایتی طریقۂ تعلیم کو ہی اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے،  تاہم اگر کوئی ضرورت ہو یعنی کسی جگہ صحیح قرآن  پڑھانے والا دست یاب نہ ہو یا اور کوئی عذر ہو   اور انٹرنیٹ کے ذریعے قرآن پڑھایا جائے، یہ جائز ہے اور اس پر مقررہ اجرت لینا بھی جائز ہوگا، لیکن  اس میں  درج ذیل باتوں کی رعایت رکھنی ضروری ہے:

1۔قرآن کی تعلیم کے لیے ویڈیو کالنگ کا استعمال نہ کیا جائے، اس لیے ویڈیو کالنگ شرعاً تصویر کے حکم میں ہے، ہاں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ ویڈیو کالنگ میں جان دار کی تصاویر سامنے نہ لائی جائیں، بلکہ ویڈیو میں قرآنِ مجید کو سامنے رکھ لیا جائے  تو اس طرح پڑھانا جائز ہوگا۔

2۔ قریب البلوغ اور بالغہ خواتین کو مرد قاری پڑھانے سے اجتناب کرے۔

صورتِ مسئولہ میں قاری حضرات کا آن لائن قرآن پڑھا کر مقررہ فیس لینا فی نفسہ جائز ہے، البتہ اس میں مصروف ہونے کی وجہ سے  دیگر فرائض و واجبات کو چھوڑنا جائز نہیں ہے۔

 البحر الرائق مع تکملۃ الطوری میں ہے:

قال رحمه الله : "(والفتوى اليوم على جواز الاستئجار لتعليم القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك، وقالوا: بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان."

(کتاب الإجارة، باب أخذ أجرة الحجام: ج:8، ص:22، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فتاوٰی شامی میں  ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیها:ج:1،ص:647، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولانجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة."

(باب شروط الصلاة، مطلب في ستر العورة: ج:1، ص:406، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311102211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں