بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی عالم کا موبائل پر درس سُن کر اس کو استاد کہنے کا حکم


سوال

ایک عالمِ دین فارغ التحصیل دوسرے عالم کا درس موبائل کے ذریعے سن کراس سے کچھ  سیکھ لیتاہے، توکیا یہ اُسے اپنا  استاد کہہ  سکتا ہے؟

جواب

اگر کسی عالمِ دین کا درس موبائل کے ذریعہ سن کر کچھ سیکھاجائے،اور سیکھنےاور سکھانے والے دونوں ہم زمانہ ہوں،تو درس  سن کر کچھ سیکھنے والا شخص اُس "مُدرِس"(درس دینے والے)کو لغت و محاورے کے لحاظ سے استاد  تو کہہ سکتا ہے،البتہ عرف عام میں رائج استاد کے معنی و مصداق کے لحاظ سے موبائل کا درس سن کر کسی کو باضابطہ استاد باور کرانا درست نہیں ہے، بلکہ  اِسےعلمی استفادہ کہاجاسکتا ہے۔

کشف الخفاء میں ہے:

"[من علم عبداآية من كتاب الله تعالى فهو له عبد].

رواه الطبراني عن أبي أمامة مرفوعا لكن بلفظ فهو مولاه، ونحوه ما جاء عن شعبة أنه قال من كتبت عنه أربعة أحاديث أو خمسة فأنا عبده حتى أموت. بل في لفظ عنه ما كتبت عن أحد حديثا إلا وكنت له عبدا ما حيي. قال النجم وفي الحديث زيادة بعد قوله فهو مولاه ينبغي أن لا يخذله ولا يستأثر عليه فإن هو فعل قصم عروة من عرى الإسلام، والمشهور على الألسنة ‌من ‌علمني ‌حرفا كنت له عبدا".

(حرف المیم، ج:2، ص:265، مکتبة القدسی)

فیروز اللغات میں ہے:

"اُستاد(اُ-س-تا د)(ف-ا-مذ): سکھانے والا ، معلم، گرو ، ماسٹر۔"

(فیروزاللغات،ص:90، ط:فروز سنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں