ایک دکان دار جو کہ گھڑیوں کی خریدوفروخت کرتا ہے، میں اس کے پاس گیا اس کو یہ کہا کہ میں آپ سے اجازت لینا چاہتا ہوں کہ میں آپ کی گھڑیوں کی تصویریں اتار لوں اور اس کو انٹرنیٹ پر بیچوں اور جب مجھے اس کا Order آئے گا تو میں آپ سے خرید کر اس کو آگے بیچ دوں گا۔ قیمت ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب اس کو وہ چیز مل جائے گی پھر وہ پیسے ادا کرے۔ اس کو چیز پہنچنے سے پہلے میں چیز خرید چکا ہوں اور اور دکان سے لے کر اس تک پہنچانے تک مال کا نقصان بھی میرا ہے۔ کیا اس طریقہ پر آن لائن کام کیا جا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ جو چیز ملکیت اور قبضہ میں نہ ہو٬ اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ٬ البتہ اس صورت میں وعدہ بیع کیا جاسکتا ہے٬ کہ میں آپ کو فلاں چیز فروخت کروں گا٬ پھر ملکیت اور قبضہ حاصل ہونے کے بعد اسے باقاعدہ فروخت کیا جاسکتا ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں چوں کہ بیچی جانے والی چیز فروخت کرنے والے (سائل ) کی ملکیت میں نہیں ہوتی٬ بلکہ آرڈر ملنے کے بعد فروخت کرنے والا ( سائل )اسے خرید کر آگے بیچتا ہے٬ اس لیے آرڈر لینے کے مرحلہ میں حتمی خرید فروخت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔اس کی جواز کی صورت یہ ہے کہ سائل معاملہ وعدہ بیع کے درجے میں کرے کہ یہ مطلوبہ چیز میرے پاس موجود نہیں ہے، میں دکان سے خرید کر پھر آپ کو فروخت کروں گا ،تو اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہوگا ۔
حدیث میں ہے :
"عن حكيم بن حزام، قال: يا رسول الله، يأتيني الرجل فيريد مني البيع ليس عندي، أفأبتاعه له من السوق؟ فقال: "لا تبع ما ليس عندك ."
(سنن ابی داؤد،باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ،ج:5،ص:362،دارالرسالۃ العالمیۃ)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"الثاني: أن يبيع منه متاعا لا يملكه ثم يشتريه من مالكه ويدفعه إليه وهذا باطل لأنه باع ما ليس في ملكه وقت البيع، وهذا معنى قوله: قال (لا تبع ما ليس عندك) أي شيئا ليس في ملكك حال العقد."
(باب المنہی عنہا من البیوع،ج:5،ص:1937،دارالفکر)
بدائع الصنائع میں ہے :
"(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض."
(کتاب البیوع،باب فی شرائط الصحۃ فی البیوع،ج:5،ص:180،دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100953
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن